گوجرخان میں جاری ترقیاتی منصوبے لٹک گئے

قارئین کرام! پاکستان میں جمہوریت کے نام پہ جو چورن بیچا جا رہا ہے اس کا فائدہ اشرافیہ سمیت چند درجن سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کو ہوتاہے اور عام آدمی مسلسل پِس رہا ہے، آٹے اور چینی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ ہوچکاہے، رمضان المبارک کی آمد سے قبل اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں اور حکومت عدم اعتماد پہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، عثمان بزدار کی کرسی کو خطرات لاحق ہیں اور وہ اپنا سامان سمیٹ رہے ہیں، اسی لئے انہوں نے جاری ترقیاتی کاموں کے فنڈز مزید جاری نہیں کئے اور ترقیاتی کام اس وقت تعطل کا شکار ہوچکے ہیں۔ قارئین کرام! گوجرخان تحصیل کو ہردور میں نظرانداز کیا جانا وطیرہ رہاہے، دوہرے نشان حیدر کی حامل اور پہلے نشان حیدر کا اعزاز اپنے سینے پر سجانے والی یہ تحصیل پاکستان میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے، اس تحصیل کے پاس بڑے بڑے عہدے رہے اور اب بھی ہیں لیکن اس تحصیل کے باسیوں کی خستہ حالی کا مداوا نہیں ہوسکا، صحت کی سہولیات، تعلیم کی سہولیات،روزگار کی سہولیات کی جانب کسی شخص نے توجہ نہیں دی اور ہر بار الیکشن میں وعدوں دعوؤں کے باوجود عوام سے کئے گئے وعدے وفا نہیں کئے جاتے اور عوام ہر بار بیوقوف بن کر ووٹ ڈال آتی ہے اور پھر پانچ سال تک لعنتیں بھیجنا ان کا مقدر رہتاہے۔ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹرشپ کے دوران ملک پاکستان میں جتنے ترقیاتی کام ہوئے شاید ہی کسی جمہوری دور میں اتنی ترقی ہوئی ہو، یہ الگ بات کہ ڈکٹیٹرز نے ملکی مفادات کے خلاف بھی کئی فیصلے کئے جن کا خمیازہ عوام کو سالوں بھگتنا پڑا، ترقی کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف کا دور اقتدار ایک سنہری دور تصور کیا جاتاہے جس میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر اختیارات کی منتقلی کی گئی، جتنی سڑکیں، گلیاں، نالیاں، گیس، بجلی، پانی اور صحت کے منصوبے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں پایہ تکمیل کو پہنچے اسکی مثال گزشتہ 24 سالوں میں بھی نہیں ملتی، لیکن چونکہ ڈکٹیٹرشپ کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اس لئے اس کے منصوبوں کو بھی کسی گنتی میں نہیں رکھا جاتا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ہی اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے گوجرخان میں ٹراما سنٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس کی بلڈنگ کیلئے فنڈز کا اجراء کیا، بلڈنگ تعمیر ہوئی اور بعد ازاں 24سالوں میں جمہوری بچھوؤں نے اس کو فنکشنل نہ ہونے دیا، دولتالہ میں معیاری ہسپتال نہ بن سکا۔ موہڑہ نوری، گلیانہ، سسرال، کونتریلہ، سکھو، مندرہ، کلیام اعوان، ساہنگ، شرقی گوجرخان بھڈانہ، حبیب چوک، بیول، جبر، تھاتھی، سوئی چیمیاں تک کوئی ڈھنگ کی ڈسپنسری نہیں اور نہ کوئی ڈھنگ کا بنیادی مرکز صحت موجود ہے جہاں 24گھنٹے ڈاکٹرز موجود ہوں، دوائیاں موجود ہوں اوروہاں کے سب مریض تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال گوجرخان کا رُخ کرتے ہیں اور پھر یہاں سے ان کو راولپنڈی ریفر کر دیاجاتاہے، موجودہ ایم پی ایز نے بھی گوجرخان میں ٹراما سنٹر کی بحالی کے دعوے کئے، پھر تاریخیں دی گئیں، پھر دلاسے دیئے گئے اور ابھی ایک ماہ پہلے خوشخبری سنائی گئی کہ فنڈز منظور ہوگئے ہیں اور عنقریب ٹراما سنٹر کی مشینری آجائے گی اور ٹراما سنٹر فنکشنل کر دیاجائے گا جو مجھے کم از کم اس دور حکومت میں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ یہ حکومت اور اسکے نمائندے جاری ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گوجرخان تحصیل کی دو اہم شاہراہوں کی تعمیر کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کئے گئے، منصوبوں کی منظوری، فنڈز کے اجراء کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ کام بھی شروع ہوا، فوٹو سیشن ہوا، تختیاں لگ گئیں لیکن کئی جگہ کام شروع نہ ہوسکا اور کئی جگہ شروع ہوکر تعطل کا شکار ہے۔ گوجرخان تا حبیب چوک سڑک کی تعمیر کی بات کی جائے تو اس سڑک کی تعمیر گزشتہ دو ماہ سے تعطل کا شکار ہے، باخبر ذرائع سے معلوم ہواہے کہ پنجاب ہائی وے اتھارٹی کو جو رقم دی گئی اس سے دوگنا کام ادارہ اس سڑک کی تعمیر کے حوالے سے کرچکاہے، اب مزید رقم نہیں مل رہی جس کی وجہ سے کام تعطل کا شکار ہے، جب رقم ملے گی تب کام شروع ہوگا، اس سڑک پر سفر کرنے والے ذہنی مریض بن چکے ہیں لیکن چونکہ ایم پی اے موصوف اعلیٰ ترین گاڑی میں سفر کرتے ہیں اس لئے انہیں اس سڑک کی موجودہ حالت کااندازہ نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ شرقی گوجرخان کے باسی ان کو گاڑی سے اُتار کر موٹرسائیکل پر بٹھا کر گوجرخان تا حبیب چوک سفر کرائیں تاکہ انہیں عوام کی تکلیف کا اندازہ ہوسکے۔ اسی طرح گلیانہ روڈ کی تعمیر کے نعرے سابقہ ادوار میں بھی لگتے آئے اور موجودہ حکومت، ایم پی اے اور ان کے سرگرم رہنما بھی دعوے کرتے آئے ہیں کہ بہت جلد اس کی تعمیر کرائیں گے، گزشتہ سال اس سڑک کے 2/3 ٹکڑوں کی تعمیر کیلئے پنجاب ہائی وے اتھارٹی کو ٹھیکہ دیا گیا متعلقہ انجینئر / سب انجینئر نے سڑک اکھاڑ کر روڑے اور خاکہ ڈال دی اور اس کے بعد رفوچکر ہوگیا جس سے عوامی مشکلات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا، گزشتہ سال پی ٹی آئی گلیانہ کے مقامی رہنما سے جب میری بات ہوئی تھی تو موصوف نے کہا تھا کہ رمضان المبارک کی وجہ سے لیبر چھٹی پر ہے، رمضان کے بعد کام شروع ہوگا، اور اب ایک سال بعد رمضان المبارک کی دوبارہ آمد ہے لیکن نہ کام شروع ہوا اور نہ سڑک کے ان اکھاڑے ہوئے ٹکڑوں کی تعمیر ہوئی۔ اس سڑک پر روزانہ سفر کرنے والوں کو بھی میرا مشورہ ہے کہ منتخب ایم پی اے کو موٹرسائیکل یا رکشے پر بٹھا کر ایک چکر لگوائیں تاکہ انہیں احساس ہوکہ عوام روزانہ کس ذہنی کوفت سے نکلتی ہے اور بارش کی صورت میں ان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ اسی طرح حکومت پنجاب کی تعلیمی پالیسی کے تحت تحصیل بھر میں سکولز کی اپ گریڈیشن ہوئی، لیکن نہ سٹاف مکمل ہے اور نہ ہی بلڈنگ موجود ہے، کئی سکول ایسے بھی ہیں جہاں پر بجلی جیسی سہولت نہیں ہے اور کئی سکولز میں پینے کا پانی نایاب ہے اور باتھ روم تک نہیں ہیں، کمروں کی حالت خستہ ہے، چاردیواری کہیں موجود ہے اور کہیں اس کا بھی وجود نہیں ہے، یہ موجودہ حکومت کی ترجیحات ہیں اور یہی ترجیحات اس حکومت کے منتخب نمائندوں کی ہیں۔ یعنی بند رکے ہاتھ میں اُسترا آیا ہواہے، لہٰذا سب اپنی خیر منائیں اور اس لولی لنگڑی جمہوریت اور اس کے چمچوں سے کسی بہتری کی امید نہ رکھیں۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں