گوجرخان مسائل کے گرداب سے کب نکلے گا؟

قارئین کرام! جب سے ہوش سنبھالا ہے گوجرخان کو مسائل کی گرداب میں پھنسا دیکھا، گوجرخان کی لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی کے مسائل کیا حل ہوں گے یہاں صرف شہر کی تقریباً تین لاکھ آبادی کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے، ہر دور میں منتخب نمائندوں اور انتظامی افسران اسسٹنٹ کمشنرز، چیف آفیسرز میونسپل کمیٹی نے بس چند انفرادی مسائل پہ توجہ دی، اجتماعی اور بڑے مسائل کے حل کیلیے کسی نے آج تک کوشش تک نہیں کی۔ آواز اٹھانا ہمارا کام ہے اور ہم نے ہر دور میں ان اجتماعی اور شہر کے بڑے مسائل کی طرف توجہ دلائی مگر افسران تو پھر افسران ہیں انہیں عوامی مسائل سے کیا لینا دینا اور منتخب نمائندے چاپلوسوں کے چُنگل سے نہیں نکل پاتے، ایک کے پاس چائے پیتے ہیں اور دوسرے کے پاس کھانا کھاتے ہیں، دن بھر گپیں ہانک کر، فاتحہ، جنازوں، ولیموں پہ فوٹوسیشن کرا کر اپنے شاہی بنگلات اسلام آباد و راولپنڈی میں آرام کیلیے روانہ ہو جاتے ہیں۔قارئین کرام! گوجرخان شہر میں جہاں سالہا سال کے مسائل ہیں وہاں روزانہ کے مسائل بھی حل ہونے کا نام نہیں لیتے، صفائی کا مسئلہ روزانہ کی بنیاد پر شہریوں کیلیے درد سر ہے، سپروائزر مرضی والے ہیں اور خاکروب ان سے بڑے افسر ہیں، کوئی ایسا دن میری زندگی میں نہیں آیا جب شہر کی گلیاں، وارڈز، سڑکیں مکمل صاف ہوئی ہوں، اس کی ذمہ داری جب متعلقہ محکمہ پہ آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے وسائل نہیں، گاڑیاں نہیں، عملہ کی کمی ہے مگر ان سارے مسائل کی دوری اور وسائل کی فراہمی پہ آج تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ نالہ صفائی کی جانب رُخ کیا جائے تو صرف آپ جی ٹی روڈ و سروس روڈ کے اطراف بنے نالے دیکھ لیں تو انکی صفائی نہیں ہوتی، کوڑا کرکٹ اور مٹی سے بھرے نالے نالہ صفائی ٹیم کی کارکردگی کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں، اگر کہیں نالہ صاف کرتے ہیں تو اس کا گند اٹھا کر وہیں سروس روڈ پہ ہفتے کیلیے رکھ دیتے ہیں، وہ دوبارہ اسی نالے میں چلا جاتا ہے۔سیوریج سسٹم کی بدحالی تو گوجرخان کے اہم ترین مسئلوں میں بنیادی مسئلہ ہے، مین بازار، ملحقہ بازاروں، تحصیل روڈ، سبزی منڈی، قصائی گلی، حیاتسر روڈ، شاپنگ سنٹر، ہاوسنگ سکیم میں سیوریج کی بدحالی ہر بارش کے بعد عوام کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے، شہری کئی کئی فٹ کھڑے گندے پانی میں سے گزرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں مگر اس کے مستقل حل کیلیے کسی نے آج تک کام نہیں کیا۔۔۔ پینے کے پانی کا مسئلہ برس ہا برس سے جوں کا توں ہے، لاکھوں کی آبادی کے شہر کو پانی فراہمی کیلیے صرف ایک پانی ٹینکی ہے، ٹیوب ویلز کی شدید کمی ہے مگر اس کمی کو پورا کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی، اگر کی ہے تو وہ کوشش فائلوں کے بوجھ تلے دبی پڑی ہے اور اس سے آگے کی کوشش نہیں کی گئی۔پارکنگ کا مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے، ڈیڑھ کلومیٹر کے شہر میں 10 ہزار رکشہ چل رہا ہے، روزانہ ہزاروں گاڑیاں گوجرخان کے مختلف بازاروں میں داخل ہوتی ہیں مگر پارکنگ پلازہ آج تک نہیں بن سکا، دن کے وقت جی ٹی روڈ پارکنگ ایریا کی شکل اختیار کر جاتی ہے، حادثات معمول ہیں مگر چونکہ اس مسئلے کے حل سے عوام کو سہولت ملتی ہے اس لیے اس جانب توجہ نہیں دی جاتی۔جی ٹی روڈ کے درمیان لگے جنگلے پوڈریوں نشئیوں نے اپنا نشہ پورا کرنے کیلیے توڑ ڈالے، کہیں سے لوہے کی سلاخیں غائب اور کہیں پورا جنگلہ غائب ہے، یہ کون کر رہا ہے اور کب سے چل رہا ہے؟؟ اس کی تحقیق کرنا کسی کی ذمہ داری نہیں کیونکہ عوام کا پیسہ ہے اور کسی کو کیا غرض یہ چوری ہو جائے یا ضائع ہو جائے۔ نشاندہی کرنے پر صفائی عملہ کی طرف سے اوورہیڈ برج (پُلوں) کی صفائی کی جاتی ہے، چند دن بعد وہیں گندگی کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، عوام پُل کا استعمال اپنے لیے عذاب سمجھتی ہے، حالانکہ ان پُلوں کی تعمیر بھی عوام کے پیسے سے ہوئی ہے مگر عوام خود ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہے، عوام پیدل جی ٹی روڈ پار کرنے کو آسان سمجھتی ہے جہاں زندگی جانے کا خطرہ رہتا ہے اور کئی زندگیوں کے چراغ گُل بھی ہوئے مگر عقل نہیں آتی اور شہر کے نام نہاد رہنما و نمائندے جگہ جگہ سے ٹوٹے جنگلوں کو بند نہیں کرنے دیتے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اگر یہ جنگلے بند ہوئے تو شہر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا ایک مغربی بنگال بن جائے گا تو ایک مشرقی انڈیا۔ یہی نام نہاد رہنما و پنڈت عوام کے دشمن ہیں اور یہی مسائل حل نہیں ہونے دیتے۔ قارئین کرام! اس شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ کام کرنے والے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں، آواز اٹھانے والے کی آواز دبائی جاتی ہے اور مٹھی بھر افراد چاہتے ہیں کہ بس انکا طوطی اس شہر میں بولے عوام کب اُٹھے گی اپنے حقوق کیلیے؟؟؟ یہ سوال میں بھی کر رہا ہوں، آپ بھی کیجیے، اپنے آپ سے اور عوام گوجرخان سے۔ شاید جواب مل جائے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں