85

گوجرخان سول ہسپتال میں میت کی تذلیل

جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

میں لکھتا رہا ہوں۔میں لکھ رہا ہوں اور لکھتا بھی رہوں گا اس لیے کہ جو کچھ تھا وہ ہے اور جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ہوئے جارہا ہے۔مجھے تو اپنے لوگوں کے دکھ جھیلنے کی نوکری ملی ہوئی ہے

اگر میرا دل اس نوکری سے اچاٹ گیا تو میں خود کو حرام خور سمجھوں گا یہ نوکری تو میرے لیے بڑی عزت کی نوکری ہے میری لیے بڑے فخر کی چاکری ہے جس کی کوئی تنخواہ نہیں کیا میں اپنے ہی زخموں سے تنخواہ لوں گا۔میں عجب ہوں

اور میرا روگ بھی عجب ہے میں اپنی تحصیل اور اپنے علاقوں کو درپیش مسائل پر بولتا رہا ہوں۔ بار بار بولتا ہوں اور پھر خود ہی اپنے آپ پر ہنستا ہوں۔نہ کتنی بار ہنستا ہوں اور کتنی بار روتا ہوں۔ہماری سرنوشت ایسی ہی ہے

کہ اس پر بار بار ہنسا جائے اور بار بار رویا جائے۔ہمارا کوئی چارہ گر نہیں کوئی تیماردار نہیں۔ ہم ایک عذاب میں مبتلا ہیں ہمارے سینے دکھوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ہمارا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ ہماری راتیں ہمیں بے رحمی سے جگاتی ہیں

۔ ہمارے دن ہمیں ہلکان رکھتے ہیں ہمارے ادارے میں بیٹھے ہمارے ملازم ہمارے آقا بنے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے ہی تنخواہ داروں سے توجہ کی بھیک مانگتے ہیں لیکن ہم ان کی نظروں میں کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے

۔اداروں کی بے حسی کی کہانیاں روز سننے کو ملتی ہیں ہم نظر انداز کرتے ہیں باقی اداروں کو چھوڑیں میڈیکل سے جڑے ہمارے مسیحاؤں کو دیکھیں تو انہیں مسیحا کہنا ہی بہت عجب لگتا ہے

۔ ایک تازہ واقعہ میں گوجر خان ٹی ایچ کیو اسپتال کے انچارج کی بے حسی کی کہانی سامنے آئی ہے جس کے مطابق گوجر خان کے نواحی علاقے چکری وکیلاں میں مویشی کھیت میں جانے پر ہونے والے تصادم میں ایک خاتون قتل کردی گئی

جبکہ اس کا بیٹا شدید زخمی ہوا احسن نامی شخص کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کروائے جانے پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر قتل ہونے والی خاتون کی باڈی ٹی ایچ کیو گوجر خان پہنچائی۔ صبح ساڑھے دس بجے لائی جانے والی باڈی کا پوسٹ مارٹم سہہ پہر تین بجے تک بھی نہیں کیا گیا۔

خاتون کے ورثاء نے الزام لگایا کہ ایم ایس آفس کے بار بار چکر لگائے لیکن صاحب بہادر سے ملاقات نہ ہوسکی۔کیونکہ موصوف سیٹ پر موجود ہی نہیں تھے۔ عملے کے افراد نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کرنے والا بندہ نہیں ہے

۔اب سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا گوجر خان ٹی ایچ کیو میں پوسٹ مارٹم کے لیے کوئی مخصوص شخص تعینات ہے۔ یا دستیاب کوئی بھی ڈاکٹر پوسٹ مارٹم کرسکتا۔جس نعش کا پوسٹ مارٹم ساڑھے تین بجے تک نہیں کیا جاسکا ورثا نے چھ بجے اس کے نماز جنازہ کا اعلان کر رکھا تھا

لیکن ہماری افسر شاہی کو اس سے کیا غرض۔شاید ایم ایس اور ڈی ایم ایس ٹی ایچ کیو کومتاثرہ خاندان کی پریشانی کا احساس بھی نہیں ہوا ہوگا کیونکہ یہ لوگ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی کو اہم نہیں جانتے ان کے نزدیک عام آدمی کی کوئی اہمیت نہیں ملک میں سزا وجزا کا نظام نہ ہونے

اور ہر ادارے میں سیاسی مداخلت نے ان لوگوں کو مادر پدر آزادی دے دی ہے۔کچھ ہو جائے یہ کچھ بھی کرگذریں ان سے باز پرس نہیں ہوسکتی خاتون کے قتل کے بعد جس کرب اور تکلیف سے متاثرہ گھرانہ گذرا اس کرب اور تکلیف میں مسیحاؤں کے کردار نے مزید اضافہ کیا

کیا کوئی سیاسی رہنماء‘محکمہ ہیلتھ پنجاب کا کوئی ذمہ دارسیکرٹری ہیلتھ‘وزیر صحت پنجاب‘گوجر خان ٹی ایچ کیو اسپتال کے ایم ایس‘ڈی ایم ایس اور دیگر ذمہ دارن کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کریں گے۔میرا خیال میں نہیں کیونکہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں

جس کے نزدیک عوام کا کام ان لوگوں کی عیاشیوں کے لیے ٹیکس اور بے پناہ ٹیکس دینا ہے اور ہم نے خاموش رہ کر ان کی عیاشیوں کے لیے رقم فراہم کرتے رہنا ہے

۔اٹھو اور اپنے حقوق کے لیے ان لوگوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالو ظلم وزیادتی کسی کے ساتھ ہو اس کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ بلا رنگ ونسل بلا سیاسی وابستگی ورنہ ہماری آئندہ نسلیں بھی ان کی آئندہ نسلوں کو خراج دیتی رہیں گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں