گوجرخان جرائم کی آماجگاہ بن گیا، پولیس بے بس

راولپنڈی ڈویژن کی سب سے بڑی تحصیل گوجرخان ہے، پاکستان کا پہلا نشان حیدر حاصل کرنے والے کیپٹن راجہ سرور شہید، سوار محمد حسین شہید نشان حیدر، سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی،سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف، سابق جج ارشد ملک مرحوم، سابق جسٹس راجہ عبدالعزیز بھٹی مرحوم، قائد ایوان سینیٹ ڈاکٹر وسیم شہزاد، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم سمیت دیگر اہم شخصیات کا تعلق اسی تحصیل سے ہے، لیکن اس تحصیل کو فرض شناس افسران کی تعیناتی کے حوالے سے ہر دور حکومت میں نظرانداز کیا گیا، کرپٹ ترین افراد کی آماجگاہ اسی تحصیل کو سمجھا اور جانا جاتاہے، یہاں پر تعینات ہونے والے افسران و ملازمین اسی مٹی کے باسیوں سے مال بناتے ہیں اور اپنے محلات تعمیر کرلیتے ہیں، موٹرسائیکل پر اس تحصیل میں آنے والا یہاں سے مہنگی گاڑیوں پر رخصت ہوتاہے، بالخصوص محکمہ مال، ہیلتھ اور پولیس میں ہمہ وقت رشوت ستانی کا بازار گرم رہتاہے، سابقہ ادوار سے کئی گنا بڑھ کر موجودہ حکومت میں رشوت عام ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کو میاں عمران عباس کی تعیناتی کے دوران تکلیف رہی ہے، پھر ان کی ٹرانسفر پہ بہت سارے لوگ خوش ہوئے لیکن اس کے بعد سے اب تک جو تھانہ گوجرخان کے علاقوں کی صورتحال ہے وہ انتہائی دردناک ہے، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے، کھلی کچہریوں کے نام پر ڈرامے لگائے جاتے ہیں، عوام کو کسی فورم پر انصاف ملتا نظر نہیں آتا، چند دن قبل کی بات ہے کہ 2019؁ء میں درج کئے گئے منشیات کے مقدمے سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج گوجرخان نے ملزم کو عدم ثبوت کی بناء پر بری کر دیا، یعنی منشیات کے بے بنیاد مقدمے درج کر کے نمبر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گوجرخان تھانے میں صرف ایف آئی آر کا اندراج ہو جاتاہے اس کے علاوہ سائل کو جھڑکیں ملتی ہیں،انصاف ہوتا نظر نہیں آتی، اسلحہ کی نوک پر فون چھیننے، نقدی، موٹرسائیکل چوری، زیورات چوری کی متعدد وارداتیں تسلسل کیساتھ ہورہی ہیں مگر نہ کوئی گینگ پکڑا جاتاہے اور نہ کوئی ملزم۔ یوں لگتاہے جیسے پولیس ڈکیتوں، چوروں، راہ زنوں کیساتھ ملی ہوئی ہے۔
انسپکٹر شہید میاں محمد عمران عباس کی تعیناتی کے دوران تقریباً ہر واردات کے ملزمان پکڑے گئے، ان سے مال مسروقہ برآمد کیا گیا، میری صحافتی زندگی میں گوجرخان شہر میں ایس ایچ او میاں عمران عباس اور اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور سے زیادہ فرض شناس افسر تعینات نہیں ہوا، جنہوں نے اپنے فرائض کو فرض عین سمجھتے ہوئے اپنے کام سرانجام دیئے، دن ہویا رات اپنی ٹیم کے ہمراہ فیلڈ میں موجود رہے اور عوام کو احساس دلایا کہ وہ واقعی عوام کے ملازم ہیں۔ بعض اوقات کسی واردات کے ملزم ہفتہ دس دن تک پکڑے نہیں جاتے تھے اور میڈیا پہ خبریں گردش کرتی تھیں تو میاں عمران عباس کا یہ کہنا ہوتا تھا کہ ایک ہفتہ یا پندرہ دن مجھے دیں، واردات ٹریس نہ ہوئی، ملزمان نہ پکڑے گئے، مال مسروقہ برآمد نہ ہوا تو آپ بیشک میرا میڈیا ٹرائل شروع کر دیں۔ اور یہی ہوتا تھا کہ اس شخص کے دیئے گئے ٹائم فریم کے اندر اندر واردات ٹریس ہوتی، ملزمان گرفتار ہوتے، مال مسروقہ بھی برآمد کر کے میڈیا کے سامنے ساری صورتحال رکھ دی جاتی۔ میاں محمد عمران عباس کے پاس ٹیم بہت مضبوط تھی جو اس کے اشاروں پر دن رات ایک کر کے وارداتوں کو ٹریس کرتے تھے، اب نہ وہ ایس ایچ او اور نہ ویسی ٹیم۔مبینہ طور پر گوجرخان میں چوروں ڈکیتوں کو موجودہ ایس ایچ او مرزا شکیل کی پشت پناہی حاصل ہے، ایک دو واقعات
نظروں سے گزرے جن میں رات کو ناکہ لگا کر پولیس شہریوں سے بدتمیزی کرتی پائی گئی۔کیا اسی پولیس کو بدلنے کا دعویٰ تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کیا تھا؟؟
گوجرخان میں گزشتہ دنوں ڈپٹی کمشنر نے کھلی (خفیہ) کچہری لگائی جس کی کانوں کان خبر اسسٹنٹ کمشنر زیب النساء نے میڈیا کو بھی نہ ہونے دی اور نہ ہی عوام اور سیاسی کارکنوں کو معلوم ہوسکا۔ اسی طرح کی ایک کھلی کچہری موجودہ DSP اور ایس ایچ او نے بھی گوجرخان تحصیل آفس میں کی، اب کیا عوام انہی عوام کے ملازمین کے پاس جاکر شکایات درج کرائیں گے جو ان کو انصاف فراہم نہیں کرپا رہے۔ ایس پی انوسٹی گیشن غضنفر علی شاہ نے دو ماہ قبل کھلی کچہری DSPدفتر میں لگائی تھی اس میں جن سائلین نے اپنی شکایات درج کرائیں کیا ان کو انصاف مل گیا؟ ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور دوسرے سے تیسرے دفتر اور پھر واپس DSPگوجرخان اور SHOگوجرخان کی ٹیبل پر درخواست پہنچ جاتی ہے اور بس رپورٹ در رپورٹ لکھ لکھ کر سائل کو تھکا دیا جاتاہے تاکہ وہ تھک ہار کر اپنے گھر بیٹھ جائے۔ گوجرخان میں کسی فرض شناس افسر کی تعیناتی نہ ہونے دینے میں مقامی منتخب نمائندوں کا بھرپور کردار ہے، کیونکہ اگر فرض شناس افسر تعینات ہو جائے اور عوام کے کام جھٹ پٹ سے ہونے لگ جائیں تو منتخب نمائندوں کو کسی نے کہاں گھاس ڈالنی ہے۔
سابق SHO انسپکٹر میاں محمد عمران عباس کا تبادلہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کرایاگیا، اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور کا تبادلہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کرایا گیا کیونکہ وہ عوام کے کام کرتے تھے، عوام کو احساس دلاتے تھے کہ ہم آپکے ملازم ہیں، ہم کام کریں گے اور ڈلیور کرنا ہمارا فریضہ ہے اور یہی بات مقامی منتخب نمائندوں کو پسند نہیں تھی، اسی وجہ سے ان کا تبادلہ کرا دیا گیا، کتنے ماہ سے گوجرخان میں رشوت خور تحصیلدار / نائب تحصیلدار / گرداور / پٹواری / لینڈ ریکارڈ کا عملہ تعینات ہے، بلدیہ میں انجینئر تعینات ہیں، جو سرعام رشوت ستانی میں مبینہ طور پر پورے کے پورے ملوث ہیں مگر ان کے تبادلے نہیں کرائے جاتے۔ کیوں؟؟ کیونکہ وہ جی حضوری میں سب سے آگے ہیں، چوہدری صاحب راجہ صاحب ملک صاحب! اور یہی منتخب نمائندوں کو چاہیے ہوتاہے۔
اللہ ہی ہمارا اور ہمارے ملک کا حامی وناصر ہے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں