گوجرخان اور کلرسیداں جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بن گیا

آصف خورشید،پنڈی پوسٹ/ضلع راولپنڈی کی سب سے پر امن تحصیلیں کلر سیداں اور گوجرخان جہاں ہر چوراہا،ہر چوک، ہر گلی، ہر محلہ حتیٰ کہ ہر دیہات امن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔یہاں کے باسی مہمان نواز تو تھے ہی مگر دوسرے علاقے کہ مہمان بھی اپنے آپ کو یہاں پر ہر لحاظ سے محفوظ سمجھتے تھے۔ چوری چکاری کا خوف نہ دیر سویر کا۔یہاں کے باسی رات کی تاریکی میں پیدل میلوں سفر طے کر جاتے۔ جب پورا ملک دھماکوں کی لپیٹ میں تھا۔تب بھی یہ علاقہ نہ صرف محفوظ تھا بلکہ چوری چکاری اور رہزنی جیسی وارداتوں سے بھی محفوظ تھا۔یہاں ہر طر ف چہل پہل تھی۔لوگ رات گئے تک بلا خوف خطر سفر کرتے۔حتیٰ کہ دوسرے علاقے کے لوگ یہاں سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔یہاں کے گراﺅنڈ آباد تھے۔دکانیں رات گئے تک کھلی رہتی۔آزاد کشمیر کے وہ مسافر جو رات کو راولپنڈی کے سفر پر نکلتے توکلر سیداں کی حدود میں داخل ہوتے ہی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے اور یہاں کچھ وقت رک کر اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوتے۔ دھانگلی تا کلر سیداں سڑک کی خستہ حالی کے باوجود پوری رات ڈڈیال سے راولپنڈی گاڑیوں کا سفر بلا خوف و خطر جاری رہتا۔ یہاں کے باسی اپنی گاڑیوں کو گھر کی چاردیواری سے کئی سو میٹر دور ویران جگہ پر بلا خوف پوری پوری رات کھڑا رکھتے تھے۔قتل و غارت، چوری چکاری رہزنی جیسے جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔گویا تحصیل کلر سیداں کا ہر گاﺅں،ہر گلی،ہر محلہ اور ہر شاہراہ نہ صرف محفوظ تھی بلکہ امن کا گہوارہ تھی۔کسی شاہراہ پر پولیس کا گشت نہ ناکے کی نوبت تھی۔حتیٰ کہ انتظامی اداروںکو امن و امان کہ صورتحال کے لیے باہر نکلنے کی نوبت نہ آتی مگر بدقسمتی سے حالیہ کچھ
عرصہ سے تحصیل کلر سیداں کو نہ جانے کس کی نظر بد لگ گئی۔یہاں کا ہر گلی کوچہ اور ہر شاہراہ لٹیروں کی آماجگاہ بن گئی۔تحصیل کلر سیداں اور گوجرخان کی کوئی شاہراہ محفوظ نہیں رہی۔چوری چکاری اور رہزنی کی بات کی جائے تو کچھ ہی عرصہ میںدرجنوں خاندان لٹیروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔گھر تو گھر دکان، گاڑی،موٹر سائیکل تک محفو ظ نہیں۔ایک ایک دن میں کئی کئی وارداتیں اخبار کی زینت بنتی ہیں۔ اگر نماز کی ادائیگی میں مسجد گیا۔ واپسی پر موٹر سائیکل سے محروم ہوگیا۔تارکین وطن سالوں کی جمع شدہ پونچھی روات سے دھانگلی تک گنوا دیتے ہیں۔حالیہ دنوں میں ڈڈیال کی ایک فیملی جو اسلام آباد ایئر پورٹ سے کشمیر کی طرف سفر کر رہی تھی۔مانکیالہ کے مقام پر لٹیروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جمع شدہ پونجی گنوا بیٹھی۔ کلر سیداں بازار کی بات کی جائے تو کئی لوگ دن دیہاڑے اپنے موٹر سائیکل گنوا بیٹھے۔کلر سیداں سے سر صوبہ شاہ تک کئی گھروں کا صفایا کر دیا گیا۔ جس کا کسی کو آج تک کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی۔قتل و غارت اور ڈاکہ زنی جیسی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ لٹیروں اور ڈاکوﺅں کا پولیس اور متعلقہ ادارو ں کے ہتھے نہ چڑھنا،یا سزا سے بچ کر نکلنا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی واردات رونما ہوتی ہے تو پولیس یا تو بیس منٹ پہلے وہاں کا چکر لگا چکی ہوتی ہے یا واردات کے گھنٹہ بعد وارد ہوتی ہے۔تب تک مجرم اپنے محفوظ مقام تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔تحصیل کلر سیداں میں بڑھتی ہوئی رہزنی اور چوری کی واراتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔جو کہ کلر سیداں پو لیس اور انتظامی اداروں پر بدنما دھبہ ظاہر کرتی ہے۔مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام کو لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔کلر سیداں کے باسیوں کی اعلیٰ عہدیداروں سے اپیل ہے کہ بڑھتے ہوئے جرائم کو بر وقت نکیل ڈالیں۔ کہیں یہ پرامن علاقہ کراچی کا لیاری نہ بن جائے۔اور اس وقت ہم منہ تکتے رہ جائیں۔لحاظہ ہر ممکن کو شش کر کے علاقے کا امن بحال رکھا جائے۔متعلقہ ادارے عوام کے ساتھ مل کر سکیورٹی پلان تشکیل دیں تا کہ اس ناسور کو جڑسے ختم کیا جائے۔کلر سیداں میں بڑ ھتے ہوئے جرائم اور سکیورٹی کی ناقص صورتحال پر یوتھ کونسل کلر سیداں کا ہنگامی اجلاس سماجی شخصیت شہزاد بٹ اور راجہ بلال کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جہاں سکیورٹی کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔مگر شاہراہ کشمیر پر پٹرولنگ پولیس گشت کے حوالے سے انتظامیہ ابھی تک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔شاید کسی بڑی واردات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں