عبدالستارنیازی/گوجرخان میں مرکزی انجمن تاجران کے پہلی بار پُرامن اور شاندار انتخابات کے انعقاد کے دو ماہ بعد تاجروں کے ووٹ سے منتخب ہونے والے صدر و جنرل سیکرٹری اور بعد ازاں ان دو عہدوں کے حامل افراد کے صوابدیدی اختیارات سے سلیکٹ ہونے والے عہدیداران و ذیلی تنظیموں کے صدور کی تقریب حلف برداری کا انعقاد کیا گیا، عہدوں کی بندربانٹ نے اپوزیشن کو کُھل کر تنقید کرنے کا موقع فراہم کر دیا، جب مجھے دعوت دی گئی تو میں نے یہ گمان کیا کہ تقریب زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے پر مشتمل ہو گی، کیونکہ صرف حلف برداری ہی تو ہونی ہے، تقریریں تو منتخب ہونے والے دوران الیکشن اور بعد از الیکشن بہت ساری کر چکے ہیں، مگر صورتحال اس کے برعکس تھی، پہلے مہمانوں کی آمد اور استقبال جاری رہا، اور جب تقریب شروع ہوئی تو وہ نہ رُکنے والا سلسلہ تھا، تلاوت اور نعت کے بعد مرکزی انجمن تاجران کے نومنتخب صدر اور کابینہ کی حلف برداری تقریب ہوئی جن سے گروپ لیڈر راولپنڈی چیمبر آف کامرس سہیل الطاف نے حلف لیا، جس کے بعد ایگزیکٹو ممبران، ذیلی تنظیموں کے صدور سے حلف لئے گئے اور یہ مرحلہ تین بار ہوا کیونکہ مرکزی انجمن تاجران نے پورا شہر ہی عہدیدار بنانے کی ٹھان رکھی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے سیاسی الیکشن کی طرح اس الیکشن میں بھی امیدواروں نے وعدے کئے تھے کہ جیت کر تمہیں فلاں سیٹ ملے گی اور تمہیں فلاں سیٹ دی جائے گی اس لیے انہوں نے سیٹ حاصل کرنے کی خاطر دن رات ایک کر کے الیکشن میں امیدواروں کو برتری دلائی، سوچنے کی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں میں سیاسی جماعتوں نے اتنے عہدیدار نہیں بنائے ہوں گے جتنے ایک شہر کی انجمن تاجران نے عہدیدار بنا ڈالے اور سب کو خوش کر دیا، تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماوں کو عہدے دیئے گئے اور حلف میں یہ بات بار بار سب نے زبانی دہرائی کہ میں سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر خدمت کروں گا اور سیاست کو اثر انداز نہیں ہونے دوں گا، بھلا یہ بھی کوئی بات ہے جو شروع دن سے پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں انکا اوڑھنا بچھونا اور انکی پہچان ہی پیپلز پارٹی ہے وہ کیسے بالائے طاق رکھیں گے؟؟ جو عہدیدار جوانی سے ن لیگ کیساتھ ہیں اور اب بڑھاپے کی طرف جا رہے ہیں وہ کیسے اس سیاست کو سائیڈ پہ رکھیں گے اور جو تبدیلی کے دعویدار عمران خان سے عشق کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پہ گالیاں تک دینے سے باز نہیں آتے وہ کس طرح سیاست کو اثرانداز نہیں ہونے دیں گے؟؟ میرے خیال میں یہ صرف کہنے کی حد تک باتیں تھیں جو حلف میں لکھی اور پڑھی گئیں انکا حقیقی اور عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں (خدا کرے میرا خیال غلط ہو) مگر یہ جو حلف ہے یہ مذاق ہوتا ہے؟ اسکی اہمیت کا کسی کو اندازہ بھی ہے؟ یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔عہدوں کی بندربانٹ کے حوالے سے بات کی جائے تو دو تین یوم سے سوشل میڈیا پہ کافی طوفان برپا ہے، تاجر اتحاد گروپ اپوزیشن رہنماوں نے انجمن تاجران کو آڑے ہاتھوں لے رکھا ہے اور اس تنقید کا آغاز میں ہی انجمن تاجران گوجرخان کی کارکردگی پر بُرا اثر پڑ رہا ہے، نہ جانے آگے جا کر کیا کچھ ہو گا۔ تاجر اتحاد گروپ اور چوہدری اقبال گروپ نے سارا الیکشن سوشل میڈیا پہ ہی لڑا ہے، تنقید در تنقید اور تعریف در تعریف سے دونوں جانب کے امیدواران اور حمایتیوں نے اس الیکشن کو کسی جنگ سے کم تر نہ سمجھ رکھا تھا اور راقم نے اس الیکشن کے دوران لکھا تھا کہ الیکشن سوشل میڈیا پہ نہیں لڑے جا سکتے بلکہ عملی طور پہ جو ووٹ زیادہ حاصل کرے گا جیت اسی کی ہو گی اور پھر پورے گوجرخان نے دیکھا کہ جس نے گراونڈ میں ورک زیادہ کیا اور آخری دو دن میں جنہوں نے رابطوں میں تیزی لائی وہ الیکشن جیت گئے۔ ایک اور عجیب بات یہ کہ اس تقریب حلف برداری میں سابق چیئرمین بلدیہ شاہد صراف بھی مدعو تھے جنہوں نے خطاب بھی کیا جو اچنبھے کی بات ہے، اس طرح انجمن تاجران گوجرخان نے تقریب حلف برداری کو مکمل سیاسی رنگ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کیونکہ شاہد صراف کی حیثیت گوجرخان میں ایک سیاسی لیڈر کے طور پر ہے، حالانکہ انکا کاروبار سے بھی گہرا تعلق ہے مگر انسان جب کسی مخصوص وجہ سے پہچانا جائے تو اسکو احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے، انجمن تاجران گوجرخان کی تاریخ کے پہلے باضابطہ اور شاندار الیکشنز کے بعد ایسی سیاسی تقریب حلف برداری اور عہدوں کی بندربانٹ نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے بہرحال انجمن تاجران کے پاس دوسال کا وقت ہے جس میں انہوں نے اپنی کارکردگی دکھانی ہے اور اپوزیشن ماسوائے تنقید کے کچھ نہیں کر سکتی اور انہیں اب دو سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔ والسلام
205