گوجرخان انتطامیہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام

طوفان بادوباراں اور نشیب وفراز زندگی کا حصہ سہی لیکن جب ظلم کے دن اور جبر کی راتوں کے قیام کا عرصہ طویل ہوجاتا ہے اور ان طویل لمحات کے دوران لوگ کتنی آزمائشوں سے گذر جاتے ہیں اس کا احساس صرف ان ہی لوگوں کو ہوتا ہے جو ان آزمائشوں سے گذرتے ہیں جبکہ خاموشی کی چادر میں ان کے ماتم کی آوازیں بھی دب جاتی ہیں ہم تو پچھتر برس سے ماتم کررہے ہیں اپنے حقوق کا ماتم‘اپنے تحفظ کا ماتم‘اپنے روزگار کا ماتم اپنے مال وزر کو لوٹنے کاماتم میں گلہ کرتا ہوں میں خون کے آنسوؤں میں لتھڑا گلہ کرتا ہوں کہ ہماری زندگیاں اس دھرتی پر بری طرح بے حرمت ہوئی ہیں لٹیروں ظالموں اور ان کے سدباب پر معمور ہنر مندوں نے اس ملک کی زندگی کو بڑی سفاکی سے لتاڑہ ہے۔کوئی نہیں جو بے بسی اور لاچاری کی زندگی گذارنے والوں کی داد رسی کرسکے بڑھتے ہوئے جرائم نے ہر شخص کو خوف کے حصار میں مقید کرلیا ہے اور یہ خوف ملک بھر میں بتدریج بڑھ رہا ہے۔یہ خوف گوجرخان اور گرد ونواح کے عوام میں بھی شدت سے سرایت کررہا ہے جہاں پولیس اپنی روایتی نااہلی کے باعث بے بس اور لیٹرے بے لگام ہوچکے ہیں۔سڑکیں‘گلیاں‘راستے گھر بار سب کچھ غیر محفوظ ہوچکا ہے پولیس کی فرائض سے غفلت کے باعث لٹیروں کی ہمت اس قدر بڑھ چکی کہ اب وہ لوٹ مار کی وارداتوں کے لیے شاھراؤں پردیدہ دلیری سے باقاعدہ ناکہ لگانے لگے ہیں اور نہ رکنے پر بلا خوف وخطر فائرنگ سے بھی دریغ نہیں کرتے۔چند روز قبل حبیب چوک کا واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔حالیہ دنوں میں لوٹ مار کی وارداتیں ایک سریل کے طور جاری ہیں روزانہ کہیں نہ کہیں سے ایسی خبر ضرور ملتی ہے۔لیکن اس کے باوجود گوجرخان پولیس خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔نااہلی کی انتہا ہے کہ کسی ایک بھی واردات کا سراغ نہیں لگایا جاسکا گذشتہ دنوں بیول الائیڈ بینک کے باہر سے بینک مینجر کے چرائے جانے والے موٹر کا بھی تاحال سراغ نہ مل سکا جبکہ پولیس کو فراہم کیے جانے والے وارادت کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں موٹر سائیکل چرانے والے ملزم کا چہرہ واضع طور دیکھا ئی دے رہا ہے۔چنگا بنگیال کے مقام پر دریالہ سیگن کے رہائشی بہن بھائی کو گلیانہ سے واپس گھر جاتے ہوئے چار موٹر سائیکل سواروں نے اسلحہ کے زور پر ڈھائی لاکھ کے طلائی زیورات اور نقدی سے محروم کردیا۔اس واردات میں مزاحمت کے دوران ایک ملزم کا جائے واردات پر گرنے والا موبائل فون بھی پولیس کے پاس موجود ہونے کے باوجود ملزم کی گرفت نہیں ہوسکی جبکہ موبائل فون کی موجودگی میں ملزمان تک پہنچنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں تھا۔لیکن ایسا نہیں ہوسکا اس سے یہ بات پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ گوجرخان پولیس (قاضیاں چوکی) کسی طور اپنے فرائض کی ادائیگی میں مخلص نہیں۔جبکہ علاقے میں مبینہ طور پر منشیات فروشی‘جواء اور جسم فروشی کے اڈوں کی اطلاعات بھی موجود ہیں۔سودی کاروبار بھی سرعام جاری ہے۔علاقے میں چرس‘شراب‘گٹکا‘آئس کے کاروبار کی بازگشت مسلسل سنائی دے رہی ہے لیکن مجال ہے کہ یہ بازگشت قانون کے رکھوالوں کے کانوں تک پہنچ پائے۔مجرمانہ سرگرمیوں کو اگر نچلی سطح پر ہی کچل دیا جائے تو شاید جرائم پرورش پا کر بڑے پیمانے پر سانحات کی وجہ نہ بن پائیں لیکن افسوس کہ ہمارے ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مخلص نہیں۔زر کی ہوس نے ہمیں جہاں فرائض سے غافل کردیا ہے وہیں ہمارے ضمیر کو بھی تھپک کر گہری نیند سلا دیا ہے۔جو عوام کی چیخ وپکار پر بھی جاگنے پر آمادہ نہیں۔ان کے سوئے ضمیروں کے نہ جاگنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم عوام تمام ظلم وزیادیتاں خاموشی سے سہنے کے عادی ہیں ہم اپنی درماندگی کے سلسلے میں قابل ملامت بھی اور قابل رحم بھی اور ہم پر یہ ظلم وزیادتی اس وقت تک ہوتی رہے جب تک ہم اپنے اندر سوال اُٹھانے کی جرات پیدا نہیں کرتے۔جب تک ہم اپنے ٹیکسوں سے پلنے والے سرکاری ملازمین اور افسران کو آقا کا درجہ دیے رکھیں گے اس وقت تک وہ ہمیں اپنا محکوم تصور کرتے ہوئے ہمیں مسلسل دبا کررکھیں گے پولیس عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے محکمہ کی قابلیت اب صرف بااثر افراد کی خوشنودی اور کمزور کو دھتکارنے تک ہی رہ گئی ہے۔افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ دو واقعات تو ایسے ہیں جن میں ظالم اپنے ظلم کے ثبوت کے ساتھ موجود ہے اور مظلوم بھی فریاد کناں سب کچھ واضح ہے لیکن پھر بھی ظالم آزاد ہے اور مظلوم انصاف کا طبگار اور انصاف فراہمی کے ذمہ دار چوکی پر پاوں پسارے نظر آتے ہیں یا بااثر افراد کی دعوتیں اُڑاتے اور عوام سکون کی تلاش میں۔
میں عمربھر تلاش ہی کرتا رہا سکون
جب زندگی ہوئی تمام میں سفر میں تھا

اپنا تبصرہ بھیجیں