
تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال گوجرخان میں پیش آنے والا افسوسناک اور شرمناک واقعہ ہمارے معاشرتی، عدالتی اور انتظامی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پنجاب پولیس کا حاضر سروس اہلکار عقیل عباس زنانہ وارڈ کے واش روم میں خواتین کی نازیبا تصاویر بناتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ملزم نے صرف چند تصاویر نہیں بلکہ 300 سے زائد برہنہ تصاویر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر رکھی تھیں۔یہ جرم صرف فردِ واحد کے خلاف نہیں بلکہ تین سو خاندانوں کی عزت پر حملہ ہے۔ ہر تصویر صرف ایک خاتون کی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک ماں، ایک بہن، ایک بیٹی اور ایک خاندان کی عزت موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا درندہ صفت شخص اگلے ہی دن ضمانت پر کیسے رہا ہو گیا؟ کیا یہی ہمارا نظامِ انصاف ہے؟ کیا خواتین کی تذلیل پر قانون کی گرفت اتنی کمزور ہے؟
ذرائع کے مطابق، ملزم عقیل عباس کے خلاف پہلے سے تھانہ صادق آباد میں ریپ کا مقدمہ درج ہے، جو اس کے مسلسل مجرمانہ رجحان کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایف آئی آر میں اس کی پولیس حیثیت کو چھپانے کی کوشش کی گئی جو انصاف کے ساتھ سنگین مذاق اور پولیس سسٹم میں موجود بدنیتی کو آشکار کرتا ہے۔ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف جیل اصلاحات کے تحت قیدیوں کو فیملی رومز میں وقت گزارنے کی سہولت دے رہی ہیں اور انسانی ہمدردی پر مبنی پالیسی متعارف کرا رہی ہیں، وہیں دوسری جانب پنجاب پولیس کے اہلکار سرکاری اسپتالوں میں خواتین کی عزت پامال کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز کی اصلاحات صرف قیدیوں تک محدود ہیں؟ کیا پولیس میں چھپے جنسی درندوں کے خلاف بھی کوئی اصلاحاتی یا تادیبی عمل ہو گا؟یہاں پر Crime Control Department (CCD) کا کردار بھی زیر سوال آتا ہے۔ CCD، جس کی سربراہی راولپنڈی میں ایس پی بنیش فاطمہ کے پاس ہے اور راولپنڈی تھانے کے ایس ایچ او محسن شاہ ہیں کیا وہ اس کیس پر شفاف اور غیر جانب دارانہ کارروائی کریں گے؟
یا معاملہ ایک اور فائل میں دفن ہو جائے گا؟یہ کیس اب محض ایک جرم نہیں، بلکہ اداروں کے وقار، نظامِ انصاف کی ساکھ اور عوام کے اعتماد کا معاملہ بن چکا ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ:ملزم عقیل عباس کو فوری طور پر نوکری سے برطرف کیا جائے۔اس کے خلاف انسدادِ ریپ ایکٹ اور سائبر کرائم ایکٹ کے تحت سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ایف آئی آر میں اس کی پولیس حیثیت چھپانے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔SP بنیش فاطمہ اور SHO محسن شاہ اس معاملے میں تاخیر کیے بغیر عملی اقدامات اٹھائیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اس واقعے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کیس کو مثالی سزا کا نمونہ بنائیں تاکہ آئندہ کوئی وردی پوش درندہ خواتین کی عزت پامال کرنے کی جرات نہ کر سکے۔آخر میں یہ سوال شدت سے جنم لیتا ہے کہ جب محافظ ہی درندہ بن جائے، تو عوام کہاں جائیں؟یہ وقت ہے کہ پنجاب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سنگین جرم کے خلاف متحد ہو کر سخت ترین اقدامات کریں کیونکہ خاموشی جرم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
حماد چوہدری