گوجرخان اسپتال کا شرمناک اسکینڈل پولیس اہلکار کی جنسی درندگی، CCD اور حکومت پنجاب کی خاموشی لمحہ فکریہ

تحریر: حماد چوہدری

گوجرخان کے تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال میں ایک نہایت افسوسناک اور شرمناک واقعہ اس وقت منظرعام پر آیا جب پنجاب پولیس کا حاضر سروس اہلکار عقیل عباس خواتین کے زنانہ وارڈ کے واش روم میں نازیبا تصاویر بناتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ملزم نے واش روم کی چھت نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موبائل فون کے ذریعے درجنوں نہیں بلکہ تین سو سے زائد خواتین کی برہنہ تصاویر بنا رکھی تھیں۔ذرائع نے انکشاف کیا کہ ملزم کے خلاف پہلے ہی تھانہ صادق آباد میں ریپ کا مقدمہ درج ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی ایک واقعے کا نہیں بلکہ مسلسل جنسی جرائم میں ملوث ایک خطرناک مجرم ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ درج کی گئی ایف آئی آر میں اس کی بطور پولیس اہلکار شناخت کو چھپانے کی کوشش کی گئی، جو انصاف کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ایک طرف وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف حال ہی میں جیل اصلاحات کے انقلابی اقدام کے تحت قیدیوں کو فیملی رومز میں اہلخانہ کے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت دے کر انسانی ہمدردی پر مبنی پالیسی کا اعلان کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف پولیس کے اپنے اہلکار سرکاری اسپتالوں جیسے عوامی اداروں میں خواتین کی عزت کو پامال کر رہے ہیں۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مریم نواز صاحبہ کا عدل، رحم اور اصلاحات کا عمل صرف جیلوں تک محدود ہے؟ کیا پنجاب پولیس کے اندر موجود جنسی درندوں کے لیے بھی یہی قانون اور اصول لاگو ہوں گے؟CCD کہاں ہے؟واضح رہے کہ حال ہی میں Crime Control Department (CCD) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ ایسے ہی سنگین جرائم اور ادارہ جاتی بدعنوانیوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جا سکے۔ راولپنڈی CCD کی سربراہی ایس پی محترمہ بنیش فاطمہ کے پاس ہے جبکہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او محسن شاہ ہیں۔یہ معاملہ اب صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ اداروں کے وقار اور عوام کے اعتماد کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا CCD اب حرکت میں آئے گا؟کیا ایس پی بنیش فاطمہ اور SHO محسن شاہ اس معاملے پر فوری، شفاف اور غیرجانب دارانہ کارروائی کریں گے؟ کیا ملزم کو صرف معطل کر کے یا دبا کر معاملہ ختم کر دیا جائے گا؟کیا مریم نواز صاحبہ اس واقعے پر ازخود نوٹس لے کر پولیس میں موجود درندوں کو قانون کے شکنجے میں لائیں گی؟یہ صرف خواتین کی پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں بلکہ پولیس وردی کو بدنام کرنے کی ایک انتہائی بھیانک مثال ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نہ صرف عقیل عباس کو فوری طور پر نوکری سے برطرف کیا جائے بلکہ اس کے خلاف انسدادِ ریپ اور سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے سزا دلوائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف آئی آر میں اس کی پولیس حیثیت کو چھپانے والوں کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جائے۔یہ وقت ہے کہ حکومت پنجاب، بالخصوص مریم نواز شریف، اس معاملے کو مثالی کیس بنا کر پیش کریں۔ بصورت دیگر، CCD، SP سطح اور SHO درجے کے افسران کی کارکردگی پر عوام کا اعتماد مزید مجروح ہو گا۔پولیس کا کام عوام کی حفاظت ہے — اگر محافظ ہی درندہ بن جائے، تو عوام کہاں جائیں۔