گوجرخان اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ‘عوام بہتری کی اُمید لگا بیٹھی

جانے والے کو خدا حافظ۔ آنے والے کو خوش آمدید
یہ صرف گوجرخان میں ہی نہیں ہوتا، ہر شہر، ہر تحصیل، ہر ضلع میں تعینات ہونے والے آفیسر کو اچھے لفظوں میں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور جانے والے کو بُرے الفاظ، تنقیدی نشتر کیساتھ خدا حافظ کہا جاتاہے،پاکستان میں بالخصوص پنجاب میں اور خصوصاً بالخصوص ضلع راولپنڈی میں کون سا ایس ایچ او، ڈی ایس پی، اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار، نائب تحصیلدار، پٹواری، اراضی ریکارڈ سنٹر کا انچارج، چیف آفیسر، سرکاری انجینئر، سرکاری ٹھیکیدار کرپشن نہیں کرتا، منتھلیاں نہیں لیتا؟؟ سب لیتے ہیں اور سب کے اپنے اپنے انداز و طریقہ کار ہیں۔ کوئی دُودھ کا دُھلا نہیں ہے،اسسٹنٹ کمشنر حرارضوان نے گوجرخان میں ایک سال 6ماہ کا عرصہ گزارا، اس دوران بہت سارے کام انہوں نے کئے اور بہت سارے اُن سے نہ ہوسکے، ہر ڈیپارٹمنٹ میں کام تقسیم ہوتے ہیں، افسر نے سارے کام نہیں کرنے ہوتے، اسی طرح ایک اسسٹنٹ کمشنر نے احکامات جاری کرنے ہوتے ہیں وہ ہر جگہ ہر وقت پہنچنے سے قاصر رہتا/رہتی ہے۔ ہفتے میں ایک دن راولپنڈی میٹنگ کیلئے مختص ہوتا ہے اور اس میٹنگ میں کئے گئے فیصلوں پہ شاید ہی کہیں عمل ہوتا ہو، مگر خانہ پُری تو کرنا ہوتی ہے، اسی طرح بغیر شیڈول کے میٹنگز کی بھرمار بھی پریشان کئے رکھتی ہے،دُور درازسے آئے ہوئے سائلین جب دفتر کے باہر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صاحب /صاحبہ تو میٹنگ میں راولپنڈی گئی/گئے ہوئی ہیں، اس لئے وہ لیٹ آئیں گی اور شاید نہ آئیں۔ کچھ سائلین بیچارے اس آس پر کہ شاید افسر آ جائیں وہ دن بھر لکڑی کے بینچ پر بیٹھے رہتے ہیں، گرمی ہو یا سردی انہوں نے اپنا کام تو کرانا ہوتاہے۔ اس لئے گزارا کرتے ہیں،اسسٹنٹ کمشنر حرا رضوان کو میں نے شام 7بجے تک دفتر میں بیٹھے کام کرتے دیکھا ہے،شہید انسپکٹر میاں عمران عباس سابق SHOگوجرخان، DSP ذوالفقار علی خان، اسسٹنٹ کمشنر حرا رضوان نے گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران بہترین حکمت عملی کے تحت کام کیاتھا، ناجائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی ہو،لاک ڈاؤن پر عملدرآمد ہو، سستا رمضان بازار ہو، آہدی آئل فیلڈ کا مسئلہ ہو، بیول میں تجاوزات ہوں، شہر میں تجاوزات ہوں، صحت و صفائی کے مسائل ہوں، وہ حسب استطاعت سرگرم عمل رہیں، مگر بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ ہر کام اسسٹنٹ کمشنر نے نہیں کرنا، کچھ کام ماتحتوں کے لئے بھی ہوتے ہیں، مگر ماتحت کام چور ثابت ہوتے ہیں اور خانہ پُری کر کے فوٹو بنا کر افسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں،مجھے ذاتی کام تو آج تک اسسٹنٹ کمشنر سے کبھی نہیں پڑا جو صرف میری ذات تک مخصوص ہو۔ عوامی کاموں کے حوالے سے ان کو گاہے بگاہے رابطہ کرتا رہتاتھا۔ اور کافی حد تک یعنی 100% میں سے 80% جن مسائل کی میں نے نشاندہی کی وہ حل ہوئے اور ٹرانسفر سے قبل عید کے تیسرے دن جب میں شرقی گوجرخان کی جانب گیا تو مطوعہ کے قریب روڈ پر بلاکس اور ریت کے ڈمپ لگے دیکھے، جو ٹریفک کی روانی میں خلل کا باعث بن رہے تھے،اس کی پکچرز بنا کر میں نے میڈم حرا رضوان کو بھیجیں جو انہوں نے وہاں سے ہٹوا دیئے اور مجھے دوبارہ مذکورہ جگہ کی تصویر بھیج دی۔ اس طرح کے دیگر کئی کام ہوئے۔ میری نشاندہی پر ایس او پیز کی خلاف ورزی پر کاروائیاں بھی ہوئیں۔ ان سارے معاملات میں میری ذات کو تو کسی قسم کا کوئی فائدہ یا نقصان نہ ہوا، بہر حال عوامی کام ہوتے رہے اور میرے لئے یہی سعادت ہے کہ میری وجہ سے عوام کا کوئی کام ہو جائے اور کسی مشکل سے عوام نکل آئے،اس سال رمضان المبارک میں سستا رمضان بازار گزشتہ سالوں کی نسبت اچھا رہا۔ لیکن بازاروں میں منافع خوروں نے لوٹ مار مچائے رکھی، انتظامیہ نے اپنا فوکس رمضان بازار پر رکھا اور دوسری جانب عوام دونوں ہاتھوں سے لُٹتی رہی جس کی براہ راست ذمہ داری اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے ماتحت عملے پر عائد ہوتی ہے۔ اور یوں اس بار رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف دینے میں انتظامیہ ناکام رہی اور منافع خوروں نے نے جی بھر کر لوٹ مار کی۔اسسٹنٹ کمشنر حرا رضوان پر الزامات ہیں کہ انہوں نے راولپنڈی کی مہنگی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پلاٹ لئے ہیں، کرپشن کی ہے، محکمہ مال سے پیسے لئے ہیں، شاپنگ سنٹر دکانات کی نیلامی میں بھی پیسے لئے ہیں، بیول تجاوزات رپورٹ میں بھی تاخیر سے کام لیا ہے، تجاوزات خاتمہ کے نام پر ان کے ماتحت عملے (بلدیہ) نے تاجروں سے منتھلیاں لی ہیں جو ان کے علم میں بھی تھیں مگر انہوں نے کوئی کاروائی نہیں کی، بغیر ٹینڈر من پسند افراد کے کام کرائے ہیں۔ مگر یہ ابھی تک الزامات ہیں اور ان پہ کسی نے نہ تحقیق کی اور نہ اس بارے میں کوئی بھی میدان عمل میں آیا۔ اور اب ٹرانسفر ہو گئی تو معاملہ ختم۔اور ہر جگہ یہی ہوتا ہے کہ عوام کا پیسہ کھانے والوں کو کوئی پوچھتا تک نہیں، صرف سیاستدانوں کے پیچھے احتساب کے ادارے پڑے رہتے ہیں اور نچلی سطح پر کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے والوں سے کوئی سوال نہیں کرتا، ان سے یہ نہیں معلوم کیا جاتا کہ ان کے پاس مہنگی گاڑی کہاں سے آئی، مہنگے مکانات بلکہ بنگلے کہاں سے آئے، ان کا لائف سٹائل ملازمت میں آنے اور ملازمت سے جانے کے بعد بدل کیوں گیا؟ یہ سوالات صرف سیاستدانوں سے پوچھے جاتے ہیں اور وہ بھی سیاست برائے سیاست کے تحت ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں اس کے علاوہ آج تک کسی سے پیسے واپس قومی خزانے میں جمع نہیں ہوئے۔ گوجرخان میں نئے تعینات ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور کی تعریف سن رہے ہیں ان کی سابقہ تعیناتی جلالپور پیروالا میں رہی ہے وہاں سے ان کی شہرت کی اچھی خبریں موصول ہوءٰں لیکن ان کی گوجرخان میں پرفارمنس دیکھ کر ہی کچھ تحریر کیا جا سکتاہے، آئندہ چند دنوں میں ان کی کارکردگی عیاں ہو جائے گی۔ کیونکہ کسی سرکاری افسر یا ملازم کی کارکردگی کیلئے مہینے نہیں بلکہ دن ہی کافی ہوتے ہیں،کم از کم میری ذات عوامی، فلاحی کام کرنے والوں کو ضرور سراہے گی اور عوام کو مشکل میں ڈالنے والوں پر تنقیدی نشتر ضرور برسائے گی، میری تنقید و تعریف کا معیار کارکردگی پر ہوتا ہے، اچھی یا بری کا فیصلہ کارکردگی دیکھ کر کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں