162

گوجرخان،شکست سے دوچار لیگی ایک میز پر بیٹھنے کو تیار

طالب حسین آرائیں،پنڈی پوسٹ/اگر کوئی کائنات کے رمز کو سمجھنے کی سعی کرئے تو سب سے پہلے اسے انسا ن کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے چاند ستاروں کا حسن ہو یا قوس وقزح کے رنگ ،کہیں پھولوں کی مہک کہیں کانٹوں کی کسک اللہ تعالیٰ نے یہ سب چیزیں اس کائنات میں جگہ جگہ بکھر دی ہیں اور ہر شے کو ایک مقام بھی عطاکیا ہے مگر جب انسان کو بنایا تو اس پوری کائنات کوجیسے اس کے اندر کہیں چپکے سے بسا دیا لیکن انسان پھر بھی مفاد پرست و موقع نکلا ،اطلاعات ہیں کہ اپنی رنجشوں اور مفادات کے ٹکراﺅ کے باعث 2108 کے الیکشن میں گوجر خان کی تینوں نشتیں ہار نے والے مسلم لیگی دوبارہ مل بیٹھے ہیں ،خبر کے مطابق ایجنڈہ اختلافات کا خاتمہ ہے ،خوشی بھی ہوئی اورہنسی بھی آئی ،جب عین بہار کے موسم میں خود ہی کانٹوں پر چلنے کا شوق پالا جائے تو تازیست ان کانٹوں کی چبھن تعاقب میں رہتی ہے ایک غلط قدم بیاض زندگی کے تمام جلی اور روشن حروف پر پانی پھیر دیتا ہے ،چند مسلم لیگیوں رہنماﺅں نے 2103 اور 2018کے انتخابات میں پارٹی قیادت کے فصیلوں سے رو گردانی کرتے ہوئے اپنے پارٹی ٹکٹ ہولڈروں کے بجائے مخالف جماعتوں کو سپورٹ کیا اور اس کا آغاز خود کو نظریاتی مسلم لیگی کہلوانے والے چوہدری ریاض نے کیا، لیکن ان کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ نے قومی وصوبائی کی تینوں نشتیں جیت لیں جس کے بعد چوہدری ریاض کی سیاسی قوت کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا اگر چوہدری صاحب ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی فیصلے پر سر خم کرتے اور پوری قوت سے اپنے امیدواروں ،راجہ جاوید اخلاص ،چوہدری افتخار وارثی اور شوکت بھٹی کےساتھ کھڑے رہتے توجہاں پارٹی اور ورکرز میں ان کا قد بڑھتا وہیں ان کی سیاسی بھرم بھی قائم رہتا، 2018میں ایک بار پھر لیگی رہنماﺅں نے
ماضی کو دہرایا ،اور تینوں نشیں کھو دیں ،ظاہری طور پر دیکھیں تو بدلہ چوہدری افتخارصاحب کا حق بنتا تھا لیکن اگر پارٹی وابستگی کو ملحوظ خاطر رکھیں یہ غلط اقدا م تھا ،تاہم ماضی کو بھول کر اگر مسلم لیگی نیک نیتی سے اپنے اختلاف ختم کرتے ہوئے کسی معائدے کے تحت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ گوجر خان کے مسلم لیگی کارکنوں کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہوگا جہیں ان رہنماﺅں نے جیتے جی برزخ میں ڈال رکھا ہے ،اگر مخلصی ہو تو مسلم لیگیوں سے یہ نشتیں جیتنا آسان نہیں طے کر لیں کہ پارٹی ٹکٹ ملنے تک ایک دوسرے کے حریف سہی لیکن ٹکٹ کا فیصلہ ہوتے ہی سب اپنے امیدوار کے لیے کام کریں گے ،لیکن ایسا ہوگا نہیں ٹکٹ سے محروم رہنے والا انا نہیں چھوڑے گا نتیجہ پھر شکست کی صورت میں نکلے گا ،البتہ اگر مسلم لیگ 2013 کی طرح راجہ جاوید اخلاص ،چوہدری افتخار وارثی اور شوکت بھٹی پر مشتمل ٹرایئکا کو الیکشن میں اتارتی ہے تو مقابلہ سخت ترین ہوگا اور جیت کے امکان نوے فیصد تک ہو سکتے ہیں ،شوکت بھٹی اور افتخار وارثی دونوں مقامی سیاست کے بڑے کھلاڑی ہیںان کی پبلک ڈیل بڑی اہمیت کی حامل ہے ،دوسری جانب راجہ جاوید اخلاص بھی ایک منجھے ہوئے تجربہ کار سیاست دان ہیں ان تینوں کا پینل 2013میں مخالف جماعتوں کے خلاف باآسانی فتح یاب ہوچکا ہے ،بہر حال یہ تو مسلم لیگ کا اندروانی معاملہ ہے کہ پارٹی کسے ٹکٹ کا اہل سمجھتی ہے ،لیکن اگر گوجر خان کے مسلم لیگی پارٹی کو فتح یاب دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی انا پرستی اوت مفادپرستی کا بالاتاک رکھ کر صرف پارٹی مفاد کے تحت سوچنا ہوگا ،راجہ جاوید اخلاص،چوہدری افتخار وارثی ،چوہدری ریاض ،شوکت عزیز بھٹی ،اور دیگر نامور لیگی اس پر غور کریں ،مسلم لیگیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ،اگر راجہ جاوید اخلاص اورافتخار وارثی آپس میں ملکر گلے شکوے دور کر سکتے ہیں تو باقی کیوں نہیں ؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں