گوجرخان،سی پی او کی غیر روایتی کھلی کچہری

چوبیس سالوں سے پولیس و دیگر ضلعی انتظامی محکموں کے افسران کی طرف سے منعقدہ کھلی کچہریوں کی رپوٹنگ کر رہا ہوں پولیس کے ضلعی کمانڈ افسران کی طرف سے ہونے والی کھلی کچہریوں میں یکسانیت ہی دیکھتا آ رہا ہوں جہاں متعلقہ تھانوں کے پولیس سربراہ اپنے حمایت میں بولنے والی مقامی شخصیات کو خصوصی طور پر مدعو کر تے اور آنکھوں کے اشارے سے انھیں مناسب موقع پر اپنی حمایت میں بولنے کا اشارہ کرتے‘ ہر کھلی کچہری سے پہلے تھانے کے ایس ایچ او اپنے اپنے تھانوں میں درج کیسوں کے مدعیوں کو سماجی شخصیات کے ذریعے منا لیا جاتا کہ وہ کھلی کچہری میں کھڑے ہو کر انکے خلاف بات نہ کریں اور نہ ہی رشوت طلب کرنے یالینے کے معاملات احکام بالا تک پہنچ سکیں کھلی کچہری کے لئے مقررہ دن کے چڑھنے سے قبل پولیس والے رات جاگ جاگ کر علاقائی اکابرین کو تیار کرتے ہیں اپنے دفاع میں بولنے و کھلی کچہری میں آنے کے لئے تاکہ ہال لوگوں سے بھرا بھرا نظر آئے شعبہ صحافت میں گزرئے ان 24سالوں میں یہی دیکھا اور محسوس کیا کہ گوجر خان میں پولیس و ضلعی انتظامیہ کی طرف سے منعقدہ کھلی کچریوں میں چند احباب نے باقاعدگی سے شریک ہونا کس عام سے مسئلے پر بات کرنا اور اس عمل کی چند تصاویر بنا کر فیس بک پر لگانا وہ نہیں بھولتے وہ نہ تو کبھی کھل کر پولیس کے خلاف بولیں گے اور نہ ہی جرائم میں ملوث افراد کی نشاندہی کریں گے بس انھیں گمان ہے کہ ان کی شرکت کے بغیر کھلی کچہری نامکمل رہے گی کھلی کچہریوں کے انعقاد کا اصل مقصد و اسکی افادیت ماند پڑ جاتی ہے مندرجہ بالاوجوہات کے سبب پولیس نظام میں بہتری لانے کی تمام امیدیں دم توڑتی محسوس ہوتی ہیں راقم کو ایسی ہی کھلی کچہری کی توقع گوجر خان میں بھی تھی مگر حیرت کی انتہا نہ رہی جب کھلی کچری کے آغاز پر تلاوت قرآن پاک کے بعد سی پی او راولپنڈی پولیس احسن یونس نے مائیک کو ہاتھوں میں تھام کر کہا کہ میں یہاں پولیس کی تعریف سننے نہیں آیا ہوں مجھے پولیس کے حق میں نہ تو لمبی لمبی تقاریر سننے کی خواہش ہے اور نہ ہی اپنے حق میں قصدیوں کی کھلی کچہری میں صرف وہی احباب تشریف رکھیں جن کو کوئی مسلہ درپیش ہے پولیس سے یا وہ کوئی درخواست یا کوئی شکایت سامنے لانا چاہتے ہیں باقی سب احباب واپس چلیں جائیں کورونا کے ایس پی اوز کا خیال رکھتے ہوئے ان کے اس دبنگ اعلان پر کھلی کچری میں شریک ان شخصیات کے غبارے سے ہوا نکل گئی جو بلا مقصد ہر کھلی کچری میں جلوہ افروز ہونا لازم سمجھتے ہیںاپنے صحافےتی کیرئیر کی پہلی منفرد و بامقصد کھلی کچہری دیکھنے کو ملی جس میں سی سی پی او نے 80 سے زاہد مدعیوں جن کے کیسز سرکل گوجر خان میں درج ہیں ان کی باتوں کو غور سے نہ صرف سننا بلکہ جاری کیس پر بات کی کیس کے تفتیشی افسران کی کارکردگی کا پوچھا اور مدعیوں کی اطمینان کے لئے فوری احکامات جاری کئے اس کھلی کچہری کی منفرد بات یہ بھی کہ اس میں سٹی پولیس افیسر کی طرف سے سرکل گوجرخان کے تھانوں میں درج ان تمام کیسز کے مدعیوں کو خصوصی طور پر بلایا جن کے قتل و دیکر جرائم میں درج کیسز کے ملزمان کے بیرون ملک فرار ہونے و اشتہاری ہونے کے سبب دس دس سالوں سے التوا کا شکار ہیں سی پی او نے بیرون ملک فرار ملزمان کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لئے اس حوالے سے لسٹ مرتب کر کے انٹرپول سے رابطہ کرنے کے طریقہ کار کو تیز کرنے کے احکامات دیئے اور ملک کے اندر روپوش اشتہاریوں کی گرفتاری کی فوری گرفتاری کو یقینی بنانے کے لئے تفتیشی افراان کو ذمہ داریاں سونپی بلکے ایک پولیس افسر کو کہا کہ اشتہاریوں کو دس دنوں میں گرفتار کر کے دکھاو تمھیں بطور ایوارڈ کسی تھانے کا سربراہ لگا دوں گا انھوں نے جہاں اپنے پولیس فورس کے نوجوانوں کے مراحل بلند کئے وہاں انھوں نے مدعیوں کی شکایات پر متعدد کیسز کے تفتیشی افسران کو کام بہتر کرنے کی وارننگ دی اور رشوت طلب کرنے اور کیس میں ناقص تفتیش پر دو پولیس افسران کو شو کاز نوٹسز بھی جاری کرنے کا کہا جن احباب کے مقدمات آٹھ دس سالوں سے دبے پڑئے تھے ان کیسز کو ری اوپن کرنے اور ملزمان کی گرفتاری کی کوششوں کو تیز کرنے اقدام پر جہاں میں نے مدعیوں کی مایوس آنکھوں میں اطمیان خوشی محسوس کی وہ سی پی او پولیس کے اس اقدام و طرز عمل پر مسرور بھی دکھائی دیئے ایسا پہلے بار راقم کو دیکھنے کو ملا کہ کسی پوکیس سربراہ نے تھانوں میں دس سال پرانے مقدمات میں درج ملزمان کی گرفتاری کے لئے احکامات صادر کئے ہوں کسی عدالتی احکامات کے بغیر رونہ ایسے مقدمات میں نامزد ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنانے و اپنے مقدمات کو متحرک رکھنے کے لئے عدالتی احکامات کا سہارا لینا پڑتا تھا کھلی کچہری کے اختتام پر راقم نے سٹی پولیس آفیسر سے دو سوالات کئے تو انھوں نے کہا کہ نماز کے بعد بات کرتے ہیں مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا مگر جب وہ ڈی ایس پی آفس سے راولپنڈی کے لئے نکلے تو مجھے دیکھ کر کہا کہ فون پر بات کرتے ہیںآپ سے اور میں نے دل میں خیال کیا کہ وہ سوالات کا جواب نہ دینے کے لئے ٹال گئے مجھے مگر جب رات گئے میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی تو کال ریسو کرنے پر آواز آئی سی پی او پنڈی لائن پر ہیں بات کریں تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ انھیں یہ یاد رہا اتنے مصروف ہونے کے سبب بھی ،کھلی کچری کی اصل ثمرات آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے جب مطلوب ملزمان و اشتہاریوں کی گرفتاریوں کی نیوز سامنے آ ئیں گی پولیس کا نظام صوبے میں بدلا یا نہیں اس پر طویل بحث درکار ہے مگر ہاں پنڈی میں پولیس کا نظام عملی طور پر بدل چکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں