گوجرخان،سرکاری ہسپتال میں ناکافی سہولیات

قارئین کرام! ملک کی سیاسی پارٹیوں میں کسی کا نعرہ عوام کی صحت سے متعلق نہیں ہے، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دہائیوں سے سنتے آئے ہیں مگر پورا کسی نے نہیں کیا مگر کیا روٹی کپڑا اور مکان کیساتھ صحت کی سہولت بھی ضروری نہیں؟چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان نے بہت اچھا اقدام اٹھایا تھا جس کے تحت صحت کارڈز کی فراہمی ہو رہی تھی اور علاج معالجہ کی سہولیات لوگوں کو مل رہی تھیں تاہم اس میں سقم یہ رہا کہ اس کارڈ کے استعمال کا عام شہری کو خاصا علم نہیں ہے، عام شہری کو یہ آگاہی نہیں کہ اس کا کس ہسپتال میں کون کون سا علاج مفت ہو سکتا ہے، صحت کا مسئلہ عام غریب شہری کو ہے، متوسط طبقہ یا امیر طبقہ پرائیویٹ اور مہنگا علاج برداشت کر لیتا ہے، اسی طرح بیوی کا خاوند کیساتھ شناختی کارڈ نہیں بنا ہوتا اور وہ صحت کارڈ کی سہولت کیلیے اہل نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ، اس طرح کی بہت سی پیچیدگیاں ہیں جو آڑے آتی ہیں اور لوگوں نے اس کارڈ کے استعمال کو انتہائی کم کیا۔دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بھی ظلم ہے کہ سرکاری ہسپتال کو بہتر بنانے کی بجائے صحت کارڈ کا اجراء کر کے پرائیویٹ ہسپتالوں کو شہ دی جائے جبکہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار قابل رحم ہے، ہر ہسپتال میں وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے، کہیں مشینری نہیں تو کہیں ڈاکٹرز نہیں اور کہیں ادویات نہیں، مگر اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتا، سبھی اس طرف دھیان کرتے ہیں جہاں سے کمیشن ملتا ہو۔گوجرخان کی بات کی جائے تو بنیادی مراکز صحت و ڈسپنسریوں میں خاکروب بھی سرجن بنے بیٹھے ہیں، نائب قاصد انجکشن لگاتا ہے اور قطرے پلا رہا ہوتا ہے، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کی بات کریں تو عام شہری کیساتھ جو سلوک دروازے پہ کھڑا کلاس فور ملازم کرتا ہے اسی سے مریض اُکتا جاتا ہے، وہ ملازم جو عوام کے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہ لیتا ہے وہی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ محسوس ہوتا ہے اور اس بات کی پرواہ ہسپتال کے سربراہ و ذمہ دار کو ہرگز نہیں ہوتی کیونکہ وہ گرمی میں ایئرکنڈیشنڈ اور سردی میں ہیٹر لگا کر ماحول انجوائے کر رہا ہوتا ہے، انکو ہاتھ پاوں اس وقت پڑتے ہیں جب کوئی افسر ہسپتال کا وزٹ کرنے آ جائے۔گوجرخان میں یوں تو بیشمار ماہر امراض ہیں لیکن چائلڈ سپیشلسٹ کی ایک مخصوص فرم یہاں پائی جاتی ہے جنکی رہائشیں تو راولپنڈی اسلام آباد ہیں مگر اتنے بڑے شہروں میں کلینک کھولنے کی بجائے وہ گوجرخان آتے ہیں تاکہ انکی دیہاڑی اچھی طرح لگ سکے۔۔ پہلے کچھ بات اس پر کہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال گوجرخان کے چائلڈ سپیشلسٹ مریض بچوں اور انکے والدین کیساتھ کیا کرتے ہیں؟؟ میرے ایک دوست مجھے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ہی ملے، سلام دعا کے بعد میں نے پوچھا کہ خیریت سے آئے ہیں؟کہنے لگے بچہ بیمار ہے اسے چیک کرانے آیا ہوں، میں نے کہا کہ چیک اپ ہو گیا تو مایوس کن انداز میں بولے کہ آدھا گھنٹہ لائن میں لگ کر جب ڈاکٹر کے پاس پہنچا ہوں تو ڈاکٹر موصوف نے کئی فٹ دور بیٹھ کر بچے کو دُور سے ہی دیکھا اور پرچی پر دوائی لکھ کر مجھے تھما دی جبکہ یہی ڈاکٹر موصوف اپنے پرائیویٹ کلینک میں بچوں کو اپنے پاس بٹھا کر ان سے اٹھکیلیاں کرتے ہیں، انہیں ہنساتے ہیں اور تسلی کیساتھ مکمل چیک اپ کرنے کے بعد تسلی کیساتھ دوائیاں لکھ کر دیتے ہیں، فرق یہ ہے کہ یہاں انہیں تنخواہ مہینے بعد ملتی ہے اور وہاں انہیں فوری فیس مل جاتی ہے، اس کے علاوہ ٹیسٹوں اور ادویات کی مد میں کمیشن الگ سے وصول ہو جاتا ہے۔انکی بات سن کر مجھے اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آیا کہ ایک فوجی ریٹائرڈ ڈاکٹر راولپنڈی سے گوجرخان آتے ہیں کسی کی وساطت سے انکے پاس والدہ محترمہ کو چیک کرانے لے گیا، انکے اسسٹنٹ نے پہلے فیس وصول کی، پھر ڈاکٹر نے چیک کیا اور الٹراساونڈ تجویز کیا، پھر خون پیشاب کے ٹیسٹ کرائے اور یہ سب کام انہوں نے صرف بیماری چیک کرنے کیلیے کیا حالانکہ وہ اپنے نام کیساتھ بڑی بڑی ڈگریاں لکھتے ہیں اور انکو اتنی عقل نہیں کہ وہ خود مرض کی تشخیص کر سکیں، یہ تو یہاں حالات ہیں۔بہرحال بات چائلڈ سپیشلسٹ کی چل رہی ہے تو ایک اور موصوف کا ذکر کرتا چلوں کہ ہاوسنگ سکیم نمبر1 گوجرخان میں چائلڈ سپیشلسٹ بیٹھتے ہیں، انکے پاس بے پناہ رش ہوتا ہے، انہوں نے لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ آنے سے پہلے اپوائنٹمنٹ لے کر آئیں، وہاں باقاعدہ نمبر جاری ہوتے ہیں اور روتے بلکتے بچے ماوں کے سینوں سے چمٹے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں، کمیشن کھانے کا عالم یہ ہے کہ انکی چیک اپ فیس 700 روپے ہے، انکے ہی کلینک میں نومولود بچوں کا معدہ واش کرنے کے چارجز (بغیر ادویات کے) 800 روپے لیے جاتے ہیں، ٹیسٹ کرانے ہوں تو اس کا کمیشن الگ لیتے ہیں جبکہ کلینک کے اندر ہی سٹور ہے جہاں ادویات انکی مرضی اور کمیشن کے مطابق دی جاتی ہیں، اس سب کے باوجود موصوف پانچ وقت کے پکے نمازی ہیں اور نماز بھی باجماعت ادا کرتے ہیں بیشک کلینک میں معصوم بچے درد اور مرض سے بلکتے رہیں۔ایسی صورتحال دیگر مختلف ہسپتالوں کی ہے جہاں سرکاری ہسپتالوں و مراکز صحت میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹرز دن 2 بجے کے بعد بطریق احسن فرائض منصبی بمطابق منشاء مریض سرانجام دیتے پائے جاتے ہیں۔جو دن کے 2 بجنے اور بعض اوقات 2 بجے سے پہلے سرکاری ہسپتال کی کرسی خالی کر کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں براجمان ہو جاتے ہیں، کیا انکی تنخواہیں حلال ہیں؟؟
فیس سے ٹیسٹوں تک، انجکشن سے میڈیکل سٹور کی دوائی تک کمیشن کھانے والوں کی یہ کمائی جائز ہے؟صبح دوپہر شام بس پیسہ پیسہ پیسہ، کب ان کا دوزخ بھرے گا؟لیکن ہم بطور مسلمان سوچتے کب ہیں؟؟ ہم بحیثیت مسلمان حلال کھانا کب چاہتے ہیں؟؟ ہم مسلمان تو صرف نام کی حد تک ہیں باقی سارے کام غیرمسلموں والے ہیں۔۔ شاید غیرمسلم بھی ایسے کام نہ کرتے ہوں۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا
یہ وہ مسلم ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات
والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں