گوجرخان،بوائز ڈگری کالج کے توجہ طلب مسائل

کہتے ہیں تعلیم شعور دیتی ہے، اسی لیے پاکستان میں نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، کہیں پرائمری سکولز میں ٹیچر نہیں تو کہیں ہائی سکول میں سہولیات نہیں، کالجز کی بلڈنگز خستہ حال، کہیں لیب موجود نہیں اور پھر کہیں بلڈنگ موجود ہے مگر ٹیچرز نہیں، عوام کے ٹیکس اور سرکار کے زیرانتظام چلنے والا ہر ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے، تعلیم و شعور سے دور رکھنے کیلیے ہر دور میں مختلف حربے استعمال ہوتے ہیں، سوشل میڈیا نے نوجوان کو اس حد تک باشعور کر دیا ہے کہ وہ سیاست میں انٹرسٹ تو لیتا ہے مگر اپنے بنیادی حقوق کا اسے علم نہیں، وہ لایعنی بحث کے ذریعے دوسرے سیاسی مخالف کو زیر کرنے کی کوشش میں اپنا مستقبل گنوا رہا ہے کیونکہ اسے تعلیم و شعور سے دور رکھا گیا ہے۔پاکستان کے پہلے نشان حیدر کا اعزاز حاصل کرنے والے بہادر سپوت کا نام راجہ محمد سرور شہید ہے جن کا تعلق تحصیل گوجرخان کے گاوں سنگھوری سے ہے اور قیام پاکستان کے فوری بعد چھڑنے والی پاک انڈیا جنگ کے دوران اُڑی سیکٹر کے مقام پر راجہ سرور شہید نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا تھا، کیپٹن راجہ محمد سرور شہید یہ اعزاز تو تحصیل گوجرخان کے ماتھے پہ سجا گئے مگر یہاں کے بااثر افراد نے اس تحصیل کو پسماندگی سے نکالنے کیلیے 75 سال میں بھی کوئی خاطرخواہ اقدامات نہ کئے۔اسی سرور شہید نشان حیدر کے نام پہ قائم لاکھوں کی آبادی کے واحد گورنمنٹ ایسوسی ایٹ ڈگری کالج فار بوائز میں سہولیات کے فقدان نے عرصہ دراز سے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ایک عمارت جس میں پڑھنے والے طالبعلم آج پاکستان میں بڑے بڑے عہدوں پر اور کئی بیرون ملک مقیم ہیں اسکی چیخ و پکار آج بھی کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہے مگر صاحبان اقتدار کی سماعتیں جواب دے چکی ہیں اس کالج سے ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کر کے برسر روزگار ہوئے، اپنے خاندان کے کفیل بنے اور کئی طلباء نے ملکی و بین الاقوامی سطح پہ ملک کا نام روشن کیا لیکن اس عمارت کی تقدیر تاحال نہ بدل سکی۔قارئین کرام! یہ دو چار برس کی بات نہیں، برسوں کا قصہ ہے، سرور شہید کالج کا ہاسٹل جو اسی کالج کے طلباء کے زیراستعمال ہوا کرتا تھا وہ اب حکومتی پالیسی کے مطابق گورنمنٹ کامرس کالج کے پاس جا چکا ہے اور اس میں کامرس کے طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں، موجودہ تعلیمی بلاک میں 500 طلباء سے زائد کی گنجائش نہیں ہے اور اس بلاک کی تعمیر کو بھی سالوں لگے ہیں حالانکہ یہ زیادہ سے زیادہ ایک برس کا منصوبہ تھا ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں یہ لفظی جنگ چلتی رہتی ہے کہ اس کا کریڈٹ کس پارٹی یا کس رہنما کو جاتا ہے لیکن اس سے قطع نظر ایک اچھا تعلیمی بلاک بنایا گیا جو قابل ستائش ہے، جبکہ دوسری طرف جس عمارت میں سالہا سال ہزاروں طلباء نے تعلیم حاصل کی اس کی مخدوش حالت کے پیش نظر موجودہ ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر نے کمال مہربانی کرتے ہوئے اسکی تعمیر کے لیے سال 2019 میں 12 کروڑ کا فنڈ منظور کرایا، جس کے بعد باقاعدہ ٹینڈر کے ذریعے ٹھیکہ دیا گیا اور عمارت کو توڑ دیا گیا، جونہی اس عمارت کا ملبہ یہاں سے ہٹا کر بنیادوں کا کام شروع ہوا تو ساتھ ہی کرونا وباء نے پاکستان سمیت دنیا کو گھیر لیا، ملکی معاشی حالات کے پیش نظر تمام فنڈز روک لئے گئے، راقم نے کرونا وباء کے اثرات کم ہونے کے بعد اگست 2020 سے لے کر آج تک بار بار اس جانب توجہ دلائی لیکن آج تک فنڈز کا اجراء نہ ہو سکا، باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اب اس بلڈنگ کی تعمیر کیلیے تخمینہ لاگت 20 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور نیا ٹینڈر دینے کی منظوری دی گئی جس کو ذرائع کے مطابق سابق ٹینڈر کے ٹھیکیدار نے چیلنج کر دیا ہے۔قارئین کرام! اس وقت سرور شہید نشان حیدر کالج میں بلڈنگ و کمروں کی کمی کی وجہ سے طلباء کی تعداد صرف 500 رہ گئی ہے، لاکھوں کی آبادی میں ہزاروں غریب والدین کے بچے تعلیم کے حصول کیلیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، پرائیویٹ کالجز میں بھاری فیسیں دینے پر مجبور ہیں اور جو فیسیں ادا نہیں کر سکتے وہ پڑھنا چھوڑ کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور دیہاڑی لگا کر اپنے خاندان کا بمشکل پیٹ پال رہے ہیں۔قارئین کرام! سرور شہید نشان حیدر ڈگری کالج کی بلڈنگ کی تعمیر اس قدر کٹھن ہو چکی ہے کہ سال 2019 میں فنڈز کی منظوری سے لے کر اب 2022 کا نومبر اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے مگر یہاں عمارت تعمیر نہ ہو سکی اور ہزاروں طلباء کیلیے تعلیم کا حصول مشکل اور ناممکن ہو چکا ہے، سننے میں آیا تھا کہ 2021 کے بجٹ میں دوبارہ فنڈز کی منظوری ہوئی اور سوشل میڈیا پہ تعریفی پوسٹیں بھی اپلوڈ ہوئی تھیں مگر 2021 کے بجٹ کے بعد اب تک نہ فنڈز کا اتا پتہ ہے اور نہ ہی بلڈنگ کی تعمیر کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی، چونکہ یہ پنجاب حکومت کا منصوبہ ہے اس لیے مخالف جماعت کے ایم این اے و سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن بری الذمہ قرار بھی نہیں دیا جا سکتا، راجہ پرویز اشرف کی کوششیں کارگر ثابت ہو سکتی ہیں اگر وہ ہائیر ایجوکیشن کے وزیر سے خود رابطہ کر کے اس تعلیمی عوامی فلاحی منصوبے میں اپنا کردار ادا کریں، جبکہ دوسری جانب ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کی غیر سنجیدہ کوششوں کے باعث ہی یہ منصوبہ تاحال التواء کا شکار ہے اور احتجاج، دھرنا اور جلسہ کی سیاست سے اب انکو فراغت نہیں کہ وہ کسی عوامی منصوبے کی جانب توجہ دیں، چار سال انکی پوری توجہ گلی نالی سڑک کی سیاست پر مرکوز رہی تبھی یہ تعلیمی منصوبے التواء کا شکار ہیں۔۔ امید ہے حلقہ کے ایم این اے راجہ پرویز اشرف اس جانب توجہ کریں گے اور اس دیرینہ مسئلے کے حل کیلیے کوئی عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ راقم یہی امید کرتا ہے ”شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات”
امید پہ دنیا قائم ہے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں