گوجرخان،اہم عمارتیں شہر سے باہر منتقل کرنا ناگزیر

تحریر:عبدالستارنیازی

معزز قارئین کرام! کسی شہر میں زمینی حقائق کے مطابق ترقی کیلئے اس کے نقشے کی تبدیلی انتہائی اہم ہوتی ہے، بڑے بڑے شہروں میں بڑے بڑے پراجیکٹس کیلئے بہت سارے کڑوے فیصلے کرنا پڑے ہیں، بدقسمتی سے گوجرخان شہر جب سے بنا ہے اور اب تک اسی آدھا کلومیٹر کے شہر میں کبھی فٹ پاتھ پہ قبضہ، کبھی سروس روڈ پر قبضہ، کبھی راستوں اور شاہراہوں پر قبضہ کرکے دھونس جماتے ہوئے غیرقانونی طور پر چھوٹے اور بڑے بزنس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، نہ تھانہ شہر سے باہر منتقل ہوسکا، نہ کچہری، نہ سبزی و فروٹ منڈی شہر سے باہر جا سکی، سبزی و فروٹ منڈی شہر سے باہر کہاں جاتی گھسیٹ گھسیٹ کر جہاں بلدیہ کی حدود ختم ہوتی ہے وہاں جناح ٹاؤن میں مفاد پرست عناصر اپنے مفادات کیلئے لے گئے،ہر شہر کی مارکیٹ کمیٹی تعین کرتی ہے کہ سبزی و فروٹ منڈی کہاں ہو گی اور گوجرخان میں سرکاری طور پر مارکیٹ کمیٹی گوجرخان کے پاس حیلیاں کے مقام پر برلب جی ٹی روڈ جگہ موجود ہے جہاں پر بورڈ بھی آویزاں ہے اور اس جگہ کا اعلیٰ افسران وزٹ بھی کر چکے ہیں لیکن چونکہ عدالت میں کیس زیرسماعت ہے اس لئے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوپا رہا۔ سرکاری دفاتر شہر کے اندر، کالج، سکول بھی شہر کے اندر، کلینک، ہسپتال بھی شہر کے اندر، بازاروں میں کثیر المنزلہ پلازے بھی تعمیر کئے گئے اور ان کی تعمیر کے دوران قریبی رہائشیوں اور بزنس مینوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، گوجرخان شہر کرائے کے لحاظ سے مہنگا ترین شہر ہے اور سہولیات کے لحاظ سے تھرڈ کلاس شہر۔ شاید میرا یہ تھرڈ کلاس شہر لکھنا کچھ احباب کی طبیعت پر گراں گزرے لیکن جو حقیقت ہو اس کو تسلیم کرنا چاہیے‘ جب تھانے کی تعمیر شروع ہونے لگی تھی تو بازگشت سنائی دی کہ تھانہ شہر سے باہر منتقل کرنے پہ غور کیا جا رہاہے لیکن پھر تھانہ وہیں بنا جہاں پہلے تھا، کروڑوں روپے کی لاگت سے جوڈیشل کمپلیکس تھانے سے ملحقہ جگہ پر عدالتوں کے ساتھ بن گیا حالانکہ اگر یہ شہر سے باہر بن جاتا تو اتنی زیادہ پریشانیاں نہ ہوتیں، اب گھنگریلہ اسٹیشن کے قریب بارایسوسی ایشن کیلئے جوڈیشل کمپلیکس کی منظوری دی جاچکی ہے اور اس حوالے سے چیک بھی بار کے پاس پہنچ چکا ہے اور امید ہے کہ جلد تعمیر شروع ہوگی لیکن یہ تعمیر اور اس کی تکمیل آئندہ دس سال میں ہوتی مجھے نظر نہیں آرہی،اسی طرح چار بینک ریلوے روڈ پر موجود ہیں، ایک بینک سابقہ سبزی منڈی میں ہے، ایک بینک سکھو روڈ پر ہے، جن کے جنریٹر بھی روڈ پر فکس ہیں اور اس وجہ سے روزانہ ٹریفک میں خلل پیدا ہوتاہے، بینک میں آنے والے گاڑیاں سڑک پر پارک کر دیتے ہیں، موٹرسائیکل پارک کرتے ہیں جس کے باعث ٹریفک جام روزانہ کا معمول ہے اور شرقی، غربی گوجرخان کے ہزاروں افراد روزانہ گوجرخان شہر آتے جاتے ہیں جو شدید پریشانی سے گزرتے ہیں، گوجرخان شہر کے بازار انتہائی تنگ ہیں، جن سے پیدل گزرنا بھی محال ہوتاہے اور رہی سہی کسر تاجر تجاوزات کے ذریعے پوری کر دیتے ہیں، کرایہ وہ دکان کا دیتے ہیں لیکن دکان سے باہر 5/6فٹ جگہ کو بھی وہ اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے مسائل پیداہوتے ہیں۔ دوسری جانب شہر میں ایچ این اے کی جانب سے 281کھوکھا جات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے سیل کرنے کیلئے اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان کی مدد مانگی گئی ہے، ایک لیٹر گردش کررہاہے، اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور کا کہنا ہے کہ این ایچ اے مجھے ڈائریکٹ کہنے کا اختیار نہیں رکھتا، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی مجھے ہدایت دیں گے تو ہم قانون کے مطابق ان کی سپورٹ کریں گے لیکن ہمارا ان کھوکھا جات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، کھوکھا بازار کے صدر مرزا تیمور وارثی نے مجھے بتایا کہ ان کھوکھا جات کی بابت پہلے سے تین کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں جبکہ چوتھا کیس بھی راولپنڈی کی عدالت میں دائر کر دیا گیا ہے، عدالت میں کرایہ جمع ہورہاہے اور عدالت کی طرف سے مقرر کردہ وکیل ہر ماہ کرایہ وصول کرتاہے، اسسٹنٹ کمشنر نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالت میں چلنے والے کیسز پر ہم نہ تو کسی قسم کا ایکشن لے سکتے ہیں اور نہ ہی ایسی صورت میں کسی بھی ادارے کی کسی سطح پر سپورٹ کریں گے، عدالتوں کا احترام ہم پر ہر حال میں لازم ہے اور ہم قانون کے مطابق چلیں گے، اس صورتحال میں ٹھیکیدار اور اس کے حامیوں کو شدید تشویش لاحق ہے اور گوجرانوالہ کے ایک رہائشی وحید اکبر نامی شخص (این ایچ اے کنٹریکٹر) اور سعید ملک ایڈووکیٹ ساکن گوجرانوالہ سے سوشل میڈیا پہ کمنٹس میں گفت و شنید ہوئی تو وہ مجھے کھوکھا جات آپریشن میں زیادہ Interested نظر آئے، شاید ان کے کوئی مفادات ہوں، اور دوسری جانب چونکہ وحید اکبر خود کو این ایچ اے کا کنٹریکٹر بتاتے ہیں تو ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہو گی اس لئے وہ کھوکھا جات آپریشن کے حق میں ہو سکتے ہیں (واللہ اعلم)۔میری رائے اور تجزیے کے مطابق مہنگائی اور بیروزگاری کی موجودہ صورتحال میں یہ آپریشن کر کے حکومت اور ادارے کسی صورت اپنی جان پہ وبال نہیں بنا سکتے۔ قارئین کرام! ضرورت اس امر کی ہے کہ گوجرخان شہر کی تاجر برادری، سیاسی قائدین، انتظامیہ ایک جگہ بیٹھ کر سنجیدہ طور پر سر جوڑے اور شہر کی انتظامی صورتحال پہ سیر حاصل گفتگو اور بحث مباحثہ کیا جائے، شہر کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے کچھ لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور ضروری سرکاری و نجی عمارتوں،تھانے، کچہری، عدالتوں، بینکوں کو شہر سے ایک دو کلومیٹر ہٹ کر شفٹ کرنے پر غور کیا جائے تاکہ شہر میں روز بروز بڑھتے ٹریفک، تجاوزات، سیکورٹی، حادثات کے مسائل میں کچھ کمی واقع ہوسکے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں