گندم کی کٹائی‘ کسانوں نے لنگوٹ کس لے

ساجد محمود‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
بیساکھ موسم بہار کے اختتام کی شنید سناتا ہے بیساکھی کی آمد دو طرح سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ایک حسن ابدال میں سکھوں کیلئے مقدس گرودوارہ پنجہ صاحب میں چار روزہ بیساکھی میلے کی تقریبات کا آغاز ہوتا ہے جسمیں اندرون اور بیرون ملک سے سکھ یاتری بڑی تعداد میں ان تقریبات میں شرکت کیلیے پاکستان آتے ہیں دوسرا بیساکھی میں پنجاب اور خطہ پوٹھوہار میں بھی گندم کی فصل کی کٹائی کا عمل شروع ہو جاتا ہے گندم کے لہلہاتے کھیت دیکھ کر ایک طرف تو کسانوں کے لبوں پر مسکراہٹ اور انکے چہرے ہشاش بشاش ہیں تو دوسری طرف کسان موجودہ بدلتی ہوئی موسمی صورتحال پر بھی خاصے پریشان ہیں جبکہ روات شاہ باغ کلرسیداں چوکپنڈوری گوجرخان اور مندرہ کی ورکشاپوں میں ٹریکٹر تھریشر اور ہارویسٹر کے انجنوں کی روانی اور دیگر زرعی آلات کی جھاڑ پونچھ اور مرمت کا کام بھی زورو شور سے جاری ہے لوہار بھی گندم کی کٹائی میں استعمال ہونے والے اوزار کو تیز کرنے کیلیے بھٹی میں کوئلے گرم کرنے میں مصروف ہے جدید زرعی آلات کی ایجاد سے قبل کسان اپنے اہل و عیال کے ہمراہ گندم کی کٹائی کا کام اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتے تھے اگر فصل کی کٹائی میں کوئی رشتہ دار یا پڑوسی پیھچے رہ جاتا تو عزیز واقارب اور دیگر گاؤں کے لوگ اسکی مدد اور ہاتھ بٹانے کو پہنچ جاتے تھے محنت اور مشقت کے بعد دن کے کھانے میں مرغن غذاؤں سے پرہیز اور خالص دیسی گھی لسی دہی مکھن اور تندور کی روٹی کا استعمال عام تھا جس سے جسمانی تھکاوٹ کاہلی اور سستی بزرگوں کے قریب پھٹکنے کا نام نہیں لیتی تھی گندم کی کاشت سے لے کر گہائی مکمل کرنے تک باہمی تعاون اور جسمانی مشقت کے دوران صبرواستقامت کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا تھا کڑی دھوپ میں فصل کو کاٹنے اور سمیٹنے میں بزرگ جوان بچے اور عورتیں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اپنے حصے کا کام سرانجام دیتے اور فصل کو ٹھکانے لگانے تک اپنی تمام تر توانیاں صرف کر دیتے تھے تاہم یہ لمحات اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اب زمانہ اور وقت تو وہی ہے مگر انسان کے عادات و اطوار بدل چکے ہیں جدید زرعی آلات کی ایجاد سے گو زراعت میں آسانیاں پیدا ہو گئیں ہیں تاہم انسان کے سماجی رابطوں کے درمیان فاصلے بھی طوالت اختیار کر گئے ہیں مشینوں کے استعمال نے اجتماعیت کے عنصر کو معدوم کر دیا ہے فصل کو ٹھکانے لگانے کا زیادہ تر کام اب مشینوں اور مزدوروں کے سپرد ہے وہ کندھے جو کٹھن موڑ پر ایک دوسرے کو سہارا دیتے تھے وہ اب خود اپنا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے حکومت کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل میں حالیہ اضافے سے بھی کم آمدنی والے کسان گندم کی فصل کو ٹھکانے لگانے پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافے پر بھی خاصے فکرمند ہیں ٹریکٹر مالکان بھی اپنی من مرضی کے نرخ مقرر کرنے پر بضد ہیں تحصیل کلرسیداں گوجر خان کہوٹہ اور دیگر گردونواح کے علاقوں میں فصل کی کٹائی کی غرض سے جفاکش پختون بھائیوں کی آمد کا سلسلہ بھی تواتر سے جاری ہے جو فصل کی کٹائی میں مصروف ہیں جبکہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے غریب گھرانے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر گندم کی فصل کو ٹھکانے لگانے کی غرض سے اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرنے اور انکو آزمانے کیلئے کمر بستہ ہیں اب گندم کی فصل پک کر کٹائی کا عمل جاری ہے اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی بھی آمد آمد ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر حالیہ بارشوں سے بھی کسانوں کو سخت پریشانی لاحق ہے اور بعض کسان ان غیر متوقع بارشوں کو اپنے ناقص اعمال کی شامت قرار دے رہے ہیں کسان روزانہ کی بنیادوں پر اخبارات موبائل اور ٹی وی پر موسم کی تازہ ترین صورتحال پر بھی مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں تاہم محکمہ موسمیات کی پیشنگوئی کے مطابق آنے والے دنوں میں خطہ پوٹھوہار کے اکثروبیشتر علاقوں میں موسم خشک رہنے کی توقع ہے سازگار موسم کے پیش نظر کسان بروقت فصل کی کٹائی کو مکمل کرنے اور باردانہ کو گھروں کے اندر منتقل کرنے کی غرض سے جدید زرعی آلات سے لیس گندم کی کٹائی میں مصروف ہیں اور ہر کسان کی یہ کوشش ہے کہ رمضان المبارک سے قبل فصل کو ٹھکانے لگانے کے تمام مراحل پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں تاکہ وہ اپنی تمام تر توجہ اس بابرکت مہینے کی فیوض و برکات کو سمیٹنے پر مرکوز کر لیں

اپنا تبصرہ بھیجیں