گندم کی کٹائی‘مشینی دور سے محبتیں معدوم

خطہ پوٹھوہار کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ جہاں پھلدار درخت پھول دار پودے گھنے جنگلات سونا اگلتی زمینیں اور لہلہاتے کھیت کسانوں میں ایک نئی امید اور جینے کی امنگ پیدا کرتے بیساکھی کا مہینہ شروع ہوتے ہی پورے پنجاب اور خطہ پوٹھوہار میں گندم کی کٹائی کا آغاز ہوجاتا ہے تاہم پہلے وقتوں کی نسبت گندم کی کٹائی کے موجودہ طور طریقے اب کافی حد تک بدل چکے ہیں۔ ماضی میں گندم کی کٹائی کے دوران بھائی چارے کی روایت تھی مگر اب نہ وہ لوگ رہے اور نہ ہی وہ محبت و بھائی چارے کی وہ روایات برقرار رہی مجھے یاد ہے کہ غالباً 1982 یا اس سے کچھ آگے پیچھے آخری بار بیلوں سے گندم کی گہائی دیکھی تھی گندم کو ایک کھیت میں گول چکر میں بکھیر کر بیل پلاہی کی جھاڑیوں کو اگھٹا کر کے جوڑ لیتے تھے جسے پوٹھوہاری زبان میں پھلہ کہتے تھے

بیلوں کی جوڑی کیساتھ ایک آدمی ہر صورت تعینات ہوتا جو گول چکر میں بیلوں کو بکھری گندم کے اوپر چکر لگواتا رہتا اور یوں شام تک یہ گندم دانے الگ اور بھوسہ بن جاتی ہوا چلتی تو ترنگل کے ذریعے بھوسہ اور دانے الگ کیے جاتے اس کے کچھ عرصہ بعد تھریشر متعارف کروائے گئے اب تو گندم کاٹنے کی مشینیں بھی دستیاب ہیں وہ بھی کیا دور تھاجب گندم کی کٹائی کے دنوں میں تمام گھر کے افراد مل کر گندم کاٹتے تھے مٹی کے گڑھے کا پانی تندور کی روٹی پر دیسی گھی اور شکر دوپہر کا کھانا تھا اور جب گندم کی گہائی کی گھڑی آتی تو تمام رشتہ دار اڑوس پڑوس اور دوست احباب مدد کو پہنچ جاتے گہائی کے کام میں مصروف افراد دوست احباب کی خاطر مدارت حلوہ کی سپیشل ڈش سے کی جاتی تھی

اس دور میں اس مخصوص دن کیساتھ حلوے کی بڑی نسبت تھی اور اس دن ایک خاص جشن کا سماں ہوتا پرخلوص لوگ رضاکارانہ طور پر مدد کیلئے پہنچ جاتے حقیقت میں وہی خوشگوار لمحے ہماری دیہی کلچراور ثقافت کی عکاسی کرتے تھے گزرے وقتوں میں جب اپریل کے آخر میں گندم کی فصل تیار ہو کر پک جاتی تو کسان پہلے ہی ترکھان اور لوھار کے پاس جا کر اپنی درانتیاں تیز کرا لیتے اس دور کی خاص بات یہ تھی کہ لوہار اس کام کے بدلے نقد رقم کا تقاضا نہیں کرتے تھے بلکہ ہر سال آڑھی اور ساونی کی فصل کاٹنے پر اناج بطور کام کے معاوضے کے وصول کر لیتے جو مقررہ مقدار یا وزن کے حساب سے مقرر ہوتا گندم کی کٹائی کے دنوں میں بازاروں کی رونقیں ماند پڑ جاتی جبکہ کھیتوں کی رونقیں بڑھ جاتی صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد کسان سادہ سا ناشتہ کرکے گھر والوں کے ہمراہ اپنے کھیتوں کو روانہ ہو جاتے تھے گھر میں صرف ادھیڑ عمر کی خاتون کو امورخانہ داری کی انجام دہی کی غرض سے گھر میں رہنے کی اجازت ہوتی تھی

یا پھر بیمار اور ضعیف العمر بزرگ گھر رہ جاتے اس وقت بھیڑ بکریاں گائے بھینس وغیرہ پالنا ہر گھر کی ضرورت تھی ان جانوروں سے خالص دودھ دہی گھی مکھن اور لسی حاصل کی جاتی لسی کی تیاری چارپائی کے ساتھ گول مٹی کا مٹکا اور پھر اس میں مندانڑو کو گول چکر میں گھما گھما کر لسی تیار کی جاتی تھی کسی کے ساتھ مکھن کی بھی کچھ مقدار بھی برآمد ہوتی دن کا کھانا تیار کرکے گھر کی خواتین خود کھانا لے کر کھیت میں پہنچاتی تھی گندم کی کٹائی کا عمل بزرگوں کی زیر نگرانی تکمیل کو پہنچتا تھا اس لیے مجال ہے کہ کٹائی کے دوران کوئی گندم کا سیٹہ ادھر ادھر بکھرا نظر آئے کٹائی کے بعد فصل کو ایک مخصوص جگہ اگھٹی کرنے کا مرحلہ آتا تھا اپنے کندھوں گدھوں یا اونٹوں پر لاد کر گندم کو بڑے سلیقے سے ایک جگہ اگھٹا کیا جاتا تھا گہائی کے بعد کسان اناج اور بھوسے کو محفوظ کرنے کیلئے ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ مدد کرتے بھوسہ چارپائیاں باندھ کر انکے اندر ذخیرہ کرنے کے بعد چارپائیاں اتار کر اردگرد مٹی کے گارے سے لیپائی کی جاتی اور وہ گارے کی لیپائی اسقدر پائیدار ہوتی کہ موسمی تغیر وتبدل کے باوجود مضبوطی برقرار رہتی اس غربت کے دور میں ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق کھانے کا بندوبست کرتا تھا

جس میں بعض اوقات دیسی مرغی دیسی گھی اور حلوہ کی سوغات کا خاص بندوبست کیا جاتا ساس سسر نندیں دیورانیاں جیٹھانیاں دیور جیٹھ اور دیگر رشتوں کے مابین احترام انسانیت کا درجہ بڑا مقدم تھا اور ہر صورت اس رشتے کا پاس کیا جاتا آج کے دور میں رشتوں میں ناچاقی نفسانفسی لالچ خودغرضی حسد جیسی خرافات نے ہماری زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے لبوں پہ مسکراہٹ بغل میں خنجر چھپائے پھرتے ہیں مطلب کے رشتے طویل لالچ کی بنیاد پر قائم ہیں مال و دولت کی ہوس اور خودغرضی کے اس لامتناہی راستے پر ہم چل نکلے ہیں جسکی منزل تباہی کے سوا کچھ نہیں پہلے وقتوں میں نیت کے سچے اور من کے پکے لوگ تھے جو بغیر کسی لالچ کے دور تک رشتے و ساتھ نبھاتے تھے مگر آج کا انسان اس قدر خودغرض اور لالچی ہو چکا ہے کہ ہر رشتے اور کام میں اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر مقدم سمجھتا ہے موجودہ دور میں گو مادی ترقی کی رفتار بڑی تیز ہے مگر آج کا انسان ایک طرف ہمدردی خیر خواہی اور خیر سگالی کے جذبات سے کوسوں دور ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف اخلاقی تنزلی نے ہمارے دامن کو داغدار کر دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں