گلیانہ تحصیل گوجر خان کا ایک نہایت قدیم ترین تاریخی قصبہ ہے تقریباً ہزار سالہ تاریخ کے حامل اس قصبہ کی بنیاد گل محمد نے رکھی گلیانہ گوجرخان کی ایک بڑی یونین کونسل کا حامل انتظامی قصبہ ہے جو لگ بھگ 30ہزار نفوس پر مشتمل ہے
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے بذریعہ سڑک لگ بھگ 70کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے
تقسیم ہند سے پہلے تحصیل دار آفس اور عدالت بھی یہی موجود تھی
گلیانہ قدیم منڈی بھی تھی قافلے جب گزرتے تو اس کا اعلان ڈھولچی کرتا جو لٹو کہلاتا تھا وہ قصبہ کی اونچی جگہ جہاں لڑکیوں کا پرائمری سکول ہے ڈھول بجا کر اعلان کرتا
قیام پاکستان کے وقت خاکسار تحریک کے بڑے قائدین کا تعلق بھی اسی قصبہ سے تھا
گلیانہ میں ایک مشہور دریا جسے مقامی زبان میں کس کہتے ہیں یہ بنیادی طور پر سکھو اور متصل علاقوں سے چھوٹی چھوٹی برساتی ندیوں کی صورت بہتا ہوا گلیانہ پہنچتا تھا پھر یہ بہتا بہتا دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے
ماضی قریب میں پینے کے پانی اور مچھلیوں کی قدرتی آماجگاہ تھا
آوگاہون ڈیم علاقائی فصلوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گلیانہ دریا کے اوپر ہی بنایا گیا یہ ڈیم فصلوں کی ضروریات پوری کرتا ہے
لیکن قدرتی بہنے والے دریا یعنی کس خشک بنجر اور سیوریج کے گندے نالوں کی نذر ہو رہا ہے چند فاصلوں پر حفاظتی پشتے باندھ کر پرانی رونقوں کو بحال کیا جا سکتا ہے
گلیانہ میں لڑکے اور لڑکیوں کے پرائمری اور ہائی سکول موجود ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انکو اپ گریڈ کیا جائے شام کی شفٹوں میں ہائی سکولز میں کالجز کی کلاسوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ گوجرخان جانے والے اور وہ بچے بچیاں جو پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن انتظامی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے معاشرے میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں قصبہ سے باہر ڈسپنسری بھی موجود ہے
ابادی میں اضاضہ اب تقاضا کرتا ہے کہ اسے ہسپتال کا درجہ دیا جائے
قصبہ میں بنک ڈاکخانہ جدید وقدیم مارکیٹس موجود ہیں
انٹرنیٹ کی سہولت ہو یا ٹرانسپورٹ کی سہولت غرض ہر چیز موجود ہے
گلیانہ کو اس کے پڑوسی گاؤں چکری سے ملانے اور نزدیکی آئیل اینڈ گیس فیلڈ آدھی اور دولتالہ سے لنک کرنے کے لیے پل بھی بنایا گیا جو ایوبی دور میں بنا یہ پل بھی جدیدیت کے ہونے کا منتظر ہے یہ روڈ کراچی سے بذریعہ بس پنڈی تک کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے
کوہ نور ملز گلیانہ کی پہچان ہے گلیانہ میں کسی دور میں پیپلز کالونی بنی جس میں سوائے ڈسپنسری کے سکول و دیگر سہولیات نہ بن سکیں گلیانہ کی دوسری کالونی یعنی
اقبال کالونی جس جہگہ بنائی گئی وہاں کسی دور میں ایئرپورٹ کے قیام کا منصوبہ تھا یہ بجا طور پر خطہ کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا
مقامی لوگوں کی دخل اندازی سے جیسا کہ سنا گیا یہ منصوبہ اپنی شروعات کے ابتدائی دور میں ہیں ختم ہو گیا ہو سکتا کسی انتظامی نا کامی کا شکار ہوا ہو لوگ کہتے کہ یہ ناتفاقی کا نتیجہ تھا خیر جو بھی ہے اللہ بہتر جانتا ہے قرب وجوار میں اس کے آثار موجود ہیں
80کے اوائل میں ہی اقبال کالونی میں تقریبآ لوگ یہاں آباد ہونا شروع ہوئے
شیخ اقبال کی عطیہ کی گئ زمین جس کو صوبیدار مجید انکے بچوں قریبی عزیزوں اور محلے داروں مل کر اس جہگہ اللہ کا گھر بنایا اس مسجد کا نام محمدی مسجد رکھا گیا
ابھی بھی ماسٹر ریاض اس کی خدمت میں پیش پیش ہیں
اقبال کالونی کی مین روڈ جنڈ سٹاپ سے گرلز ہائی سکول شیراز کریانہ سٹور تک جاتی ہے
اوپر ساری باندھی گئ تمہید کا مقصد یہ تھا کہ جس علاقے کو درگزر کیا گیا وہ اپنی اہمیت محل وقوع جغرافیائی ساخت کے لحاظ سے ایسا تو نہ تھا
اقبال کالونی کا سب سے بڑا مسلہ پانی کی نکاسی ہے سیوریج سسٹم سرے سے ہے ہی نہیں جنڈ سٹاپ سے لے کر کالونی کے اندر تک جہگہ جہگہ گٹروں برساتی اور روزمرہ گھریلو استعمال کا پانی کھڑا رہتا ہے مسجد میں آنے والے لوگ ہوں یا مہمان سکول میں پڑھنے والے بچے بچیاں ہوں یا علاقے کے مکین سبھی اس جدید دور میں غلاظت اور تحفن زدہ گلیوں سے گزر کر آتے جاتے ہیں غرض کوئی پرسان حال نہیں
بجلی کے کم کھمبے لٹکتی تاریں بھی ارباب اختیار کو دعوت دے رہی کہ چند کھمبے جو ترتیب سے لگائے جائیں سٹریٹ لائٹس کا بھی بندوبست کیا جائے
ایک چھوٹی ڈسپنسری بنائی جائے تاکہ لوگ گوجرخان جانے سے بچ سکیں
کالونی میں ایک چھوٹا پلے گراونڈ اور فیملی پارک بنایا جائے ابھی کچھ زمینیں خالی ہیں مستقبل کی منصوبہ بندی اور جدید شہر اقبال کالونی کو بنایا جا سکتا یہ گوجرخان کا اقبال سٹی بھی بن سکتا ہے جہاں گلیانہ کے لوگوں کے مسائل ہیں انکے ساتھ ساتھ اقبال کالونی کے لوگوں کے مسائل بھی حل ہوں اور کالونی کا حسن بھی برقرار رہے
من ن گلیانوی