گستاخانہ مہم کے محرکات اور حل

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور خاص کر اللہ تعالیٰ کے رسل عظام سلام اللہ علیہم کی شان اقدس میں گستاخیوں کا سلسلہ آج کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ ناپاک سلسلہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے ہر زمانہ میں کچھ ایسے بدباطن بدطینت گندی ذہنیت اور گندی سوچ و سمجھ کے لوگ رہے ہیں جنہوں نے انبیاء کرام سلام اللہ علیہم جو دنیا کی پاکیزہ ترین ہستیاں ہیں ان کی حرمت کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اگر آپ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ پہلی امتوں میں سے انبیاء کرام سلام اللہ علیہم کی شان میں گستاخی بنی اسرائیل کا خاص شیوہ تھا حتیٰ کہ قرآنی بیان کے مطابق انہوں نے بہت سے انبیاء کرام سلام اللہ علہیم کا قتل تک کر دیا تھا قرآن مجید میں گستاخانہ حرکتوں کا شکوہ کرتے ہوئے کہا گیا ”ان بندوں کی (نامرادی) پر افسوس وحسرت ان کے پاس جو رسول بھی آتا تو یہ اس کا تمسخر اڑانے سے نہیں چوکتے“ (یٰسین:۳۰) انبیاء ومرسلین کی شان میں گستاخی کے سبب پچھلی قوموں پر عذاب بھی نازل ہوا چنانچہ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے ”بیشک آپ سے پہلے (بھی کفار کی جانب سے) رسولوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا تو سو میں نے کافروں کو پہلے مہلت دی پھر میں نے انہیں (عذاب کی) گرفت میں لے لیا پھر دیکھیے میرا عذاب کیسا تھا ” (رعد:۳۲) ایسے بد بخت و بد اخلاق حواس باختہ فاطر العقل لوگوں کا سلسلہ جاری وساری ہے جو انسانیت کی پاکیزہ ترین ہستیوں پر طعن و تشنیع کرتے ہیں جب بھی ان کا نفس ان کو ورغلاتا ہے تو وہ غلاظت سے بھر پور الفاظ بکنا شروع کر دیتے ہیں اور اس پر عار بھی محسوس نہیں کرتے دور حاضر میں انڈین نژاد برطانوی شہری احمد سلمان رشدی نے 1988 میں ایک توہین آمیز ناول لکھ کر اپنے خبث باطن کا اظہار کیا چند سال کے معا بعد بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین نے 1994 میں ”لجا”نامی کتاب لکھ کر اپنے حرام کا نطفہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی پوری مسلم امہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اس کے بعد چھ سات سال بڑے پر سکون گزرے پھر دیکھتے ہی دیکھتے یورپین کو پتہ نہیں کیا ہوا کہ اکتوبر 2001میں ڈنمارک کے ایک یہودی اخبار ”جیلنڈر ہوسٹن ”نے گستاخانہ خاکے بنا کر اس ناپاک مہم کا آغاز کیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے دیگر یورپی ملک بھی اس غیر مہذب اور گستاخانہ مہم میں کود پڑے اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہی تھا کہ چند دن قبل انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی ترجمان نپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے انتہائی توہین آمیز گفتگو کی جب کہ دہلی کے میڈیا ہیڈ نوین جندال نے متنازع ٹویٹ کیا گستاخانہ مہم کا سلسلہ دو عشروں سے بڑی ہی شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے دیکھنا پڑے گا کہ اس توہین آمیز مہم کے اسباب و محرکات کیا ہیں 1۔ یورپین کے اپنے سروے یہ بتا رہے ہیں کہ دنیا میں اگر کوئی دین سب سے تیز پھیل رہا ہے تو وہ اسلام ہے اسلام کے آفاقی پیغام کی روز بروز مقبولیت دیکھ کر اس کے خلاف نفرت کا اظہار کر کے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا 2۔مسلمانوں کو اشتعال دلانا تاکہ ان کے مشتعل اقدامات کو بہانہ بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جائے اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں 3۔اسلامی تعلیمات کو متنازع بنا کر پیش کرنا تاکہ اسلام کی طرف مائل ہونے والا یورپی طبقہ تذبذب کا شکار ہو جائے 4۔ اسلام جو دین امن و محبت وسلامتی ہے اس کو دین دہشت و بربریت ثابت کرنا 5. مسلمان ممالک کے اصل مسائل او
ر موضوعات سے عوام کو بھٹکا کر ترقی کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنا اصل بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے کا مستقل سدباب کیسے کیا جائے تاکہ پھر کسی کو ایسا بے ہودہ فعل کرنے کی جسارت نہ ھو اس کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ مسلم ممالک متحد ہو کر دیگر ممالک کو بھی شامل کر کے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کریں جس میں صرف اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہ کی جائے(کیونکہ تمام انبیاء کرام و رسل عظام سلام اللہ علیہم کی عزت وتکریم ہمارے ایمان کا حصہ ہے) بلکہ یہ کہا جائے کہ دنیا کے جتنے بھی مذہب ہیں ان کی جتنی بھی صاحب تعظیم و تکریم ہستیاں ہیں ان کی شان میں نازیبا حرکت جرم قرار دی جائے اس طرح کوئی بھی کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے جذبات مجروح نہیں کر سکے گا جیسے ہولو کاسٹ کا تذکرہ کرنا جرم ہے تاکہ یہود کے جذبات مجروح نہ ہوں اس سارے کام کے لیے امت مسلمہ کے حکمرانوں کو اپنے اندرونی و بیرونی اختلافات کو اپنی جگہ پر رکھتے ھوئے صرف اور صرف دین اسلام کی غیرت و حمیت کے لیے ایک ہونا پڑے گا اگر آج بھی ستاون مسلم ممالک اس نکتے پر اکٹھے ہو جائیں اور متفقہ طور پر کہہ دیں کہ ان گستاخیوں کو بند کرو ورنہ یہ جنگ کی دھمکی نہیں تجارت کی دھمکی ہو گی تو مجھے امید ہے یورپین ممالک خود یہ قرارداد لے آئیں گے مگر اتحاد کہاں سے آئے اگر صرف انڈیا کی بات کی جائے تو صرف چھ خلیجی ممالک میں پچاسی لاکھ انڈین کام کرتے ہیں جو تقریباً 35 ارب ڈالر زرمبادلہ بھیجتے ہیں ان ممالک کا تجارتی حجم 87ارب ڈالر ہے اگر یہ چھ ممالک انڈیا سے گستاخی کرنے والوں کو سزا دینے اور مسلمانوں پر ظلم وستم روکنے کا سختی سے مطالبہ کریں میرے خیال میں انڈیا ایک دن میں ہی گھٹنے ٹیک دے گا کیونکہ وہ اتنے بڑے نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا بات پھر گھوم کر وہیں آتی ہے کہ ہمیں غیرت ایمانی اور دینی معاملات میں اتحاد پیدا کرنا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں