گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن بہت اداس/ چوہدری محمد اشفاق

پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر عبدلخطیب چوہدری کے چھوٹے بھائی محمد حبیب کو دنیا فانی سے پردہ کیے ہوئے دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لیکن یہ سال کیسے مکمل ہوا کیسے گزرا اس کا اندازہ تو صرف غمگین خاندان ہی لگا سکتا ہے ۔ بھائیوں نے کیسے اپنے آپ کو سنبھالا بیوہ اور بچوں پر کیا بیتی یقناََان سب کے لیے

حبیب مرحوم کے بغیر گزارا ہوا ایک لمحہ بھی مہینوں کے برا بر ہو گا اس خاندان کو حبیب کے بچوں کو دلاسا دینے میں کتنی دقت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا یہ خدا تعالیٰ اور سو گواران ہی جانتے ہیں لیکن میں حبیب مرحوم کے بارے میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ نہا یت ہی شریف النفس ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی محنتی شخص تھے میری حبیب کے ساتھ پہلی ملاقات تقریباََ نومبر دسمبر 2012 میں ہوئی اس سے پہلے میں نے کبھی نہ ان کو دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی واقفیت تھی جونہی آمنا سامنا ہوا انہوں نے ہاتھ میری طرف بڑھا یا اور کہا اشفاق بھائی اسلام علیکم میں نے بھی ہاتھ بڑھایا اور سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی میں سوچنے لگا کہ یہ کون شخص ہے جس کو میں نے پہلی بار دیکھا ہے اور یہ شخص میرا نام بھی جانتا ہے میں نے ہمت کر کے پوچھا کی بھائی آپ کون ہیں میں نے آپ کو پہلی بار دیکھا ہے اور آپ میر انام تک جانتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر میرے بڑے بھائی ہیں اور آپ کو اس طرح جانتا ہوں کہ آپ ہمارے اخبار میں کالم لکھتے ہیں اور ساتھ آپ کی تصویر بھی لگی ہوتی ہے تو اس طرح سے میں آپ کو جانتا اور پہچانتا ہوں اس کے بعد ملا قاتیں بڑھتی گئیں اور تعلقا ت مزید مضبوط ہوتے گئے جب بھی ملتے بڑے احترام اور گرم جوشی سے ملتے روات سے لے کر شاہ باغ تک پنڈی پوسٹ کی کامیابی انہی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے مرحوم حبیب صبح اخبار فروخت کر کے سار ا دن اپنی دکان جو کہ منکیالہ کے مقام پر ہے ڈیوٹی دیتے اخبار فروش دکاندار ہونے کی وجہ سے مالی حالات اللہ کے فضل سے اچھے تھے روزانہ نہایت ہی خوشی سے اخبار لانے کے لیے روانہ ہوتے 9 اکتوبر 2013 کو بھی حسب معمول گھر سے اخبار لینے کے لیے راولپنڈی روانہ ہوئے ابھی گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر پہنچے تھے کہ جاوید اشرف پلازہ کے سامنے ایک گھوڑا ملک الموت کی صورت میں اچانک روڈ پر آگیا اور سیدھا آ کر موٹر سائیکل جس پر حبیب سوار تھے سے ٹکر ایا اور حبیب شدید زخمی ہو گیا فوری طور پر راولپنڈی پہنچایا گیا حادثہ کی اطلاع ملنے پر بھائی بھتیجے اور دیگر رشتہ دار حبیب حبیب پکارتے راولپنڈی ہسپتال پہنچے ڈاکٹروں نے فوری طور پر دماغ کا آپریشن کیا آپریشن کے بعد اطلا ع ملی کہ دماغ کا آدھا حصہ ضائع ہو چکا ہے ہسپتا ل میں 35,40 گھنٹے زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا رہنے کے بعد 11 اکتوبر برو ز جمعہ المبارک زندگی کی بازی ہارتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے یہ خبر پورے علاقہ میں آگ کی طرح پھیل گئی حدیث نبویﷺ ہے کہ جو شخص رزق حلا ل کے لیے گھر سے نکلے اور راستہ میں مو ت واقع ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو شہادت کا رتبہ عطا فرماتے ہیں کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ حبیب اللہ کو پیارا ہو گیا ہے گھر میں ہر طرف کہرام مچ گیا تھا آس پاس کےعلا قوں سے لو گ سیلابی ریلے کی طرح پہنچنا شرو ع ہوگئے بھائیوں اور بھتیجوں کو ہو ش ہی نہ تھا کہ کو ن آرہا ہے اور کون جارہا ہے کیونکہ ان کی تو دنیا ہی اجڑ چکی تھی کیونکہ کہ اگر کوئی بڑی عمر کا شخص دنیا چھوڑ جائے تو دل میں خیال آتا ہے کہ عمر گزار کر گئے ہیں لیکن اگر کوئی ایسا شخص جس نے ابھی زندگی ک بہاریں دیکھنی ہوں توسار ی عمر ایک نہ بھولنے والی داستان چھوڑ جاتا بھائیوں نے چھوٹے کے بارے میں کیا کیا سوچ رکھا ہو گا بیوہ نے اپنے بچوں اور خاوند کے بارے میں کیا کیا خواب سجائیں ہو نگے سب ادھورے رہ گئے ماں یہ حادثہ دیکھنے سے پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوچکی تھیں اور بھائی اس وقت تک اگر باتوں باتوں میں کہیں ذکر آجائے تو بے ساختہ رونا شروع کر دیتے ہیں اور میں اکثر یہ کوشش کرتا ہوں کہ عبدا لخطیب چوہدری کے سامنے حبیب مرحوم کا ذکر نہ کروں کیوں کہ وہ مرحوم بھی کا نام سن کر بھول جاتے ہیں کہ میں بیٹھا کہاں پر ہوں اور کیا کر رہا ہوں مرحوم نے اپنے پیچھے دو ننھے پھول چھوڑے ہیں جو باپ کی وفات کے وقت محض ایک کلی تھے اپنی والدہ سے ضرور اصرار کرتے ہونگے کہ ہمار ا باپ کہاں ہے یقناََ اس کے پاس سوائے رونے کے اور کوئی جواب نہ ہو گا میں نے بڑے بڑے جنازوں میں شرکت کی لیکن اپنے اس علاقہ میں پہلا اتنا بڑ ا جنازہ دیکھا ان کے انتقال کو آج دو سال اور ایک دن ہو گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جانے والے کے بعد ہی اس کی صحیح ا ہمیت کا اندازہ ہو تا ہے حبیب مرحوم کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی مالک کائنات سے دعا ہے کہ وہ حبیب مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور سو گوار خاندان کو صبر عطا فرمائے (آمین){jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں