گزرا سال پنڈی پو سٹ کے لئے کیسا رہا/چوہدری محمد اشفاق

زندگی بڑی تیزی کے ساتھ گزر رہی ہے وقت کسی کے قابو میں نہیں ہے اپنی مرضی سے آتا ہے اور بغیر ہمیں بتائے پوچھے گزر بھی جاتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ ہم اسے گزاریں کیسے اس کو اچھا یا بُرا گزارنا بھی ہمارے ہی بس میں ہوتا ہے جو لوگ وقت کا

احساس کیے بغیر اسے گزار دیتے ہیں وہ بھی انہیں محسوس کیے بغیر گزر جاتا ہے جن لوگوں کا پچھلا سال اچھا گزرا ہوا ہوتا ہے وہ اگلے سال کے لئے بھی اسی طرح کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں کچھ لوگوں کے لئے نیا سال تاریکیاں لے کر آتا ہے بہر حال امیدیں اچھی ہی رکھنا چاہیں ویسے بھی انسان کی زندگی امیدوں پر ہی گزر جاتی ہے جن میں سے کچھ پوری ہو جاتی ہیں اورکچھ حسرتیں بن کر ہمارے ارگرد گھومتی رہتی ہیں قارئین کرام غور کرتے ہیں کہ پنڈی پوسٹ نے 2015 کیسے گزارا کیاحاصل کیا اور کیا پایا اور کھویا سب سے پہلے نقصانات کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ 2015 میں پنڈی پوسٹ کی ٹیم کو دو بہت بڑے نقصان ہوئے جس نے دو بڑے نا مور صحافی اور ساتھی کھو دےئے جن مین ایک جاوید اقبال اور ملک ظفر شامل ہین ان دونوں شخصیات کا شمار اعلیٰ پائے کے صحافیوں میں ہوتا تھا ان کی تحریریں اور خبریں قارئین کی نظر میں خاصی اہمیت کی حامل تھیں پنڈی پوسٹ کی ٹیم ان دونوں شخصیات کے اردکرد گھوما کرتی تھی اور کوئی بھی مسئلہ پریشانی ہو ان سے مشورہ اور تجاویز ضرور مانگی جاتی تھیں۔ اور ان پر عمل بھی کیا جاتا تھا ملک ظفر کی سختی بھری باتیں ہماری لئے حکم کا درجہ رکھتی تھیں اور ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ ملک ظفر جو بھی کہہ رہے ہیں وہ ایک سر پرست کی حیثت سے کہہ رہے ہیں دو سرے جاوید اقبال بٹ تھے جن کی وجہ سے پنڈی پوسٹ کو اخبار کے ساتھ ساتھ ایک خاندان ایک گھر کی طرح یکجا کر رکھا تھا اور وہ جب بھی دفتر میں تشریف لاتے تو آنے سے پہلے ٹیم کے ارکان سے رابطہ کرتے اور حق دعویٰ سے کہتے کہ میں سر دار مارکیٹ پہنچ رہا ہوں اور آپ لوگ بھی جلد ازِجلد وہاں پہنچنے کی کوشش کریں گپ شپ لگانی ہے پنڈی پوسٹ کو ان دونوں ستونوں کی اچانک و فات سے بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا یہ کمی کسی بھی طرح پوری نہ ہو سکے گی چائے جتنا بھی لمبا عرصہ اور و قت گزر جائے اور انہی دو شخصیات کی وجہ سے پنڈی پوسٹ کو 2015 میں ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہونا پڑا ہے اور شاید یہ خلا کبھی پرانہ ہو سکے گااب آتے ہیں کہ پنڈی پوسٹ نے 2015 میں حاصل کیا کیا ہے اس اخبار جسکی عمر آج ساڑھے تین سال ہو چکی ہے نے ہمیشہ کی طرح اپنے قارئین کی تعداد میں سینکڑوں کے حساب سے اضافہ کیا ہے چیف ایڈیٹر کی بہترین پالیسیوں اور حکمت عملی کے باعث اس اخبار نے کامیابیوں کی منازل طے کی ہیں۔ اخبار کے قارئین چانے والوں اور اس سے وابستہ افراد کے مطابق 2015 پنڈی پوسٹ کے لئے سیاسی اعتبار سے بھی بہت اچھا گزرا کیونکہ حالیہ بلدیاتی انتحابات میں تحصیل راو لپنڈی اور کلر سیداں کی تمام یونین کو نسلز کے امیدواروں نے اس اخبار کو ہی اپنی سیاست کا محور سمجھا ہے اور ہر امیدو ار نے انفرادی طور پر اس کو اپروچ کیا اپنے اشہتار ات بیانات اور خبریں پنڈی پوسٹ میں شائع کر وانے کو ترجیح دی ہے الیکشن اختتام پذیر ہو گئے ہیں جیتنے اور ہارنے والے تمام امید وار پنڈی پوسٹ سے بالکل مطمئن ہیں اس کے علاوہ گزشتہ سال پنڈی پوسٹ کی ٹیم میں بھی اضافہ ہو ا ہے سر کو لیشن میں بھی اضافہ ہوا ہے کسی بھی ادارے محکمے یا اخبار کی کامیابی کی ضمانت اس کی کار کرد گی چاہنےوالو ں میں اضافہ جیسے اسباب ہی ہوا کرتے ہیں الحمداللہ پنڈی پوسٹ کو یہ تمام اعزاز حاصل ہیں اسی کو کامیابی کہا جاتا ہے اور انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب پنڈی پوسٹ ہر گھر کی مانگ بن جائے گا۔آج اللہ کے فضل و کرم سے نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اسٹالوں پر اخبار پہنچنے سے پہلے پڑھنے والے انتظار کر رہے ہوتے ہیں پنڈی پوسٹ کی ٹیم نئے عزم کے ساتھ 2016 میں داخل ہو چکی ہے اور نئے سال میں مزید اہداف حاصل کئے جائیں گے دعا ہے کہ 2015 کی طرح 2016بھی امن اور خوشیوں سے گزر ے اور پنڈی پوسٹ کے لئے مزید کا میا بیاں اور کا مرانیاں حاصل ہوں۔{jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں