گرلز کالج چک بیلی خان اور سیاسی انتقام/مسعود جیلانی

سیاسی مخالفین پر مقدمے بازی ،انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے جیسی انتقامی کاروائیاں پاکستان کی سیاست میں ایک رواج کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں سیاسی لوگ اپنے اپنے دورِ اقتدار میں اپنے مخالف پر ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنا ایک فرضِ عین کی طرح سمجھتے ہیں وفاقی وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان صاحب کے حلقہ انتخاب میں

بھی یہ رواج پوری طرح عام ہے پچھلے طویل عرصہ سے جناب چوہدری نثار علی خان صاحب کا سیاسی پلڑا بھاری ہونے کی وجہ سے سیاسی انتقام کا نشانہ ان کے مخالفین زیادہ ہی بنتے ہیں مجموعی رائے یہی سامنے آتی ہے کہ چوہدری نثار علی خان اپنے کارکنوں کی ان حرکتوں سے بے خبر ہوتے ہیں اور یہ معاملات ان کے معتمدِ خاص شیخ اسلم صاحب اور ان سے نیچے کے لوگوں تک ہی سرانجام پاتے ہیں اکثر اوقات چوہدری نثار علی خان عام آدمیوں سے خطاب کے دوران یہی کہتے ہیں

کہ جس کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو وہ معاملہ ڈائریکٹ ان کے نوٹس میں لائے اگر ان تک رسائی ممکن نہ ہو تو صرف چار روپے لگا کر ڈاک کے ذریعے معاملہ کو ان کے نوٹس میں لائیں اس کے بعد وہ خود اس معاملہ کو دیکھ لیا کریں گے لیکن یہ طریقۂ کار متاثرہ لوگوں کی دادرسی کرنے میں بالکل ناکام ثابت ہوا ہے کیونکہ چوہدری صاحب تک

رسائی اور بذریعہ ڈاک شکایت پہنچانے تک متاثر ہ شخص زیادتی کرنے والوں سے اپنا دھنیا کروا کے فارغ ہو چکا ہوتا ہے اور اگر کبھی کبھار تھوڑا وقت پر پہنچ بھی جائے تو وہ اپنے معاملہ کا فالو اپ لینے کے لئے چوہدری نثار علی خان صاحب سے دوبارہ رابطے میں پھر مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے اسی علاقے میں ہفت روزہ پنڈی پوسٹ کی اشاعت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے ہر ہفتہ کالم کی اشاعت میں ایک نہ ایک ایسا مسئلہ سامنے لانے کی کوشش ضرور کی ہے

جس میں ایسے متاثرہ لوگ بھی استفادہ کر لیتے ہیں جنہیں اپنا مسئلہ اعلیٰ سطح پر پیش کرنے کے طریقۂ کار کا ادارک بھی نہیں ہو تادوسرا چوہدری نثار علی خان صاحب کو اپنے فرائض کی ادائیگی اور ان کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں بھی آسانی ہو جاتی ہے اس کے علاوہ اگر وہ کسی عوامی مسئلہ پر توجہ نہیں دیتے تو کم ازکم ان کو ووٹ دینے والے کو بھی اپنی راہ متعین کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے آج کے اس کالم میں چک بیلی خان کے رہائشی دو افراد کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اسی سیاسی انتقام کے باعث یہ عیدالفطر اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں سے دور جیل میں گذاریں گے چک بیلی خان کی مساجد میں کچھ عرصہ قبل اعلان ہوا تھا

کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے چک بیلی خان کے لئے گرلز کالج منظور کیا ہے جس کے لئے ہم نے با با بلوچ خان والی دیہہ شاملات اراضی عطیہ کر دی ہے لہٰذااس شاملات میں جن جن کی ملکیت ہے وہ ہمارے پاس آکر جگہ عطیہ کرنے کی دستاویز پر دستخط کر دیں جگہ کے عطیہ کرنے کے طریقۂ کار پر ایک شخص شبیر خان شیریال نے اعتراض کرتے ہوئے یہ کہا شاملات اراضی کا رقبہ 13کنال17مرلے ہے جبکہ کالج کیلئے 9کنال شامل کرکے باقی جس جگہ پر قبضہ ہے وہ خواہ مخواہ مفت میں قبضہ گروپ کو بخشی جا رہی ہے

شبیر خان شیر یال کے مؤقف کے ساتھ اور بھی بہت سارے لوگوں کو اتفاق تھا لیکن قبضہ کی گئی جگہ میں چونکہ کچھ حکومتی پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے اس تجویز سے ان کی جگہ جانے کا خدشہ تھا اس لئے انہیں یہ تجویز پسند نہ آئی اور انہوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے جبری طور پر کالج بنانے کا فیصلہ کر لیا کالج بننے کا آغاز ہوا تو شبیرخا ن شیر یال اور امجد مسعود شیریال نامی دو افراد نے قانونی کاروائی کا راستہ اختیار کر لیا کالج کی تعمیر رک گئی اچانک چند دنوں بعد پولیس نے شبیر خان شیریال اور امجد مسعود شیریال کو گرفتار کر لیا اور بتایاکہ ان دونوں پر واٹر سپلائی سکیم سے متعلق محکمہ کی درخواست پر پرانی واٹر سپلائی سکیم کے پائپ چوری کرنے کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جسے دونوں متاثرہ اشخاص نے سراسر انتقامی کاروائی قرار دیا ہے

ہم ان کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے پر تو اپنی کوئی رائے نہیں دیتے البتہ ایک سوال سننے والوں کے ذہن میں ضرور ابھرا ہے کہ اگر ان اشخاص نے پائپ چوری ہی کئے تھے تو یہ واٹر سپلائی سکیم آج سے لگ بھگ 9سال قبل 2006ء کے لگ بھگ شروع ہوئی تھی اور اس کا کام ادھورا چھوڑ دیا گیا بعد میں چک بیلی خان کو نئی واٹر سپلائی سکیم دے دی گئی محکمہ نے نئی واٹر سپلائی سکیم بناتے وقت نہ توپرانی واٹر سپلائی سکیم کے ادھورے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے ان پائپوں اور دیگر سامان کو استعمال کیا بلکہ اسے سنبھالنے کی بھی کوشش تک نہ کی اس سے قبل کی واٹر سپلائی کے کچھ ناکارہ 35عددپائپ جو سڑک سے ملحقہ قبرستان میں پڑے ہوئے تھے کچھ حکومتی جماعت کے کرتوں دھرتوں نے بغیر کسی نیلامی کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کباڑیوں اور کچرا چننے والوں کو دے دئیے ان تمام بد عنوانیوں کی طرف نہ ہی مذکورہ محکمہ اور نہ انگلی اٹھانے والے کسی عام آدمی کا دھیان گیااب جب کالج کی تعمیر معاملے پر ان دو اشخاص نے اختلاف کیا تو انہیں بجائے قائل کرنے یا ان کا مطالبہ ماننے کے ان پر مقدمہ بنا کر انہیں دھر لیا گیا

حکومتی جماعت کے لوگوں نے اسے انتقامی معاملہ قرار دینے کی نفی کرتے ہوئے اسے سراسر محکمے کی کاروائی قرار دیا اور اپنی لاتعلقی ظاہر کرنے کی کوشش کی حالانکہ جو معلومات متاثرین کو ملیں ان میں منصوبہ بنانے والے حکومتی جماعت کے تھری سٹار فیصلہ سازوں نے اس منصوبہ کو بنایا ہے جس کے مطابق عیدالفطر کا دن جیل میں کٹوانے کے لئے عید سے چند دن قبل ان کی گرفتاری ڈالی گئی تاکہ ضمانت کروانے کے عمل میں ان کی عید جیل میں ہی گذر جائے یہ لوگ جیل میں عید تو گذار لیں گے اور سیاسی انتقام لینے والوں کے سینوں کی آگ بھی ٹھنڈی ہو جائے گی لیکن ان کے اس قدم سے نفرت کی جو نہ بجھنے والے اور بڑے نقصانات کرنے والی آگ جلے گی اس کا ان عقل کے اندھے انتقامیوں کو ادراک تک یہ لوگ ایسی حرکتوں کے باعث معاشرے کے اندر ایسی آگ لگانے کا باعث بن رہے ہیں

جو معاشرے کے لئے ترقیاتی کاموں کی بجائے ایک پر امن علاقے کو بھی جنگ وجدل کے میدان میں بدل کر رکھ دیں گے ان اندھوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیءں کہ ان کی جبری سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے اور چوہدری نثار علی خان کو بھی چاہئیے کہ ایسے لوگوں کو ایسے کاموں سے روکیں جو اپنی سیاست چمکانے اور دھاک بٹھانے کے لئے پر امن معاشرے کو جنگ و جدل میں بدلنا چاہتے ہیں ۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں