گردن جھکا لینے میں

شاہد جمیل منہاس/نعمت سے بغاوت کرنا زوال کا آغاز ہے۔ استغفار کا سفر عروج کا آغاز ہے۔ استغفراللہ سر بلندی کا وظیفہ اور الحمداللہ انعام یافتہ بندوں کا ورد ہے۔ غلط سے غلط انسان کے لیئے بھی اصلا ح کا واحد راستہ محبت ہے۔ تنقید اور تلخی چاہے کتنی ہی حق پر کیوں نہ ہو وہ اِصلاح کے لیئے ہر گز موزوں نہیں ہوتی۔ اِس دُنیا کی سب سے پُرانی، طویل اور مشہور شاہراہ کا نام صراطِ مستقیم ہے۔ جس پر چلنا اگرچہ دشوار ہے لیکن یہی حقیقی راستہ ہے۔ یاد رہے کہ بہترین تنقید وہ ہے جس کے ذریعے دوسروں کی انا کو نہیں بلکہ ضمیر کو جگایا جا ئے۔ بڑی عجیب سی بات ہے کہ جدید انسان کی سب سے خطرناک ایجاد عارضی تعلقات ہیں۔ اللہ پاک ایسی ایجادات سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ آج کا انسان بھی بڑا انمول ہے۔ دوستی، رشتے ناطے اور تعلقات صرف اس لیئے قائم رکھتا ہے کہ اُسے دُنیاوی فوائد حاصل ہوں۔ جبکہ اُسے یہ خبر ہی نہیں کہ کب اور کس طرح اور کس جگہ اُسے موت آ جائے اور جن فوائد کے لیئے وہ مارا مارا پھرتا ہے وہ نقصان بن کر اُسی کی قبر کے سانپ بن جائیں۔ ہر دور میں بڑا بھائی چھوٹے بھائیوں کے لیئے دن رات ایک کر تا ہوا پایا گیا اور تعلیم سے محروم صرف اس لیئے رہ جاتا ہے کہ اگر وہ خود سکول کالج یا یونیورسٹی جاتا تو اُس کے باقی بہن بھائی اَن پڑھ رہ جاتے۔ لہذا وہ اپنی نوجوانی، جوانی حتیٰ کہ ساری زندگی کے سکون کی قربانی دے کر باقی سب کو تعلیم یافتہ بنا دیتا ہے۔ دراصل تعلیم یافتہ وہ خود ہے کہ جس نے سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا مگر تربیت یا فتہ اتنا کہ تعلیم یا فتہ نہ ہونے کے باوجود بے شمار پڑھے لکھے افراد کا اُستاد بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ اِس لیئے کہ اگر وہ خود تعلیم حاصل کرتا تو اُس کے باقی بہن بھائی مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اَن پڑھ رہ جاتے۔ لہذا اُس ایک نے کمایا اور پھر سب کو بنایا۔ میرے بڑے بھائی راجہ وحید (مرحوم)نے ہم سب بہن بھائیوں کے لیئے ایسا ہی کیا۔ اور کامیاب ترین رہا۔ آج وہ ہم میں موجود نہیں مگر دُنیا و آخرت میں سُر خرو ضرور ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں کا اعتراف اور ہر وقت استغفار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر اور پھر ان نعمتوں کے بعد دوسروں کے لیئے محبت کے جذبات اِس بات کی دلیل ہیں کہ انسان اور حیوان میں اگر کوئی فرق ہے تووہ ہے دو اور چار ٹانگوں کا ہونا۔ حیوان میں عقل نہیں ہوتی لہذا سزا اُس کے لیئے ہر گز نہیں ہوتی۔ انسان کو ربّ تعالیٰ نے عقل سے نوازا لہذا ہر بُرے فعل کی سزا اُسے دُنیا اور آخرت دونوں میں ہر حال میں مل کر رہے گی۔ یاد رہے کہ ہم جس صورت و شکل کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں وہ ہمارا انتخاب ہر گز نہیں ہوتا۔ لہذا جو انتخاب ربّ کا ہے اُس کا حساب ہم نے ہر گز نہیں دینا۔ پیدا ہونے کے بعد اور بلوغت تک پہنچ کر اور اُس کے بعد ہمارا جو کردار ہوتا ہے وہ ہمارا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے کردار کا حساب اس دُنیا میں اور ابد ی زندگی میں دینا ہو گا۔ ٹیڑھے ہاتھوں والا فرد جو پیدائشی طور پر معذور تخلیق کیا جاتا ہے وہ جنّت میں جا کر رہے گا۔ بشرطیکہ اُس کی نیت صاف ہو مگر اِن معذور افرادکا مذاق اُڑانے والے وہ یقینا جہنم کا ایندھن بنیں گے اور پھر جہنم میں جا کر معذور ہی تو ہوں گے۔ لہذا ہمارے پاس یا دوسروں کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ایک امتحانی پرچہ ہے مگر ہمیں بہت بعد میں جا کر معلوم ہوتا ہے۔ ریاکاری سے بڑا گناہ کوئی ہو نہیں سکتا اور تکبر قبر کے بدترین بچھوؤں کو دعوت دینے کا پیغام ہوا کرتا ہے۔ نہ جانے آج کا انسان ایسا کیوں سوچتا ہے۔ حالانکہ اُسے معلوم ہے کہ اُس نے مر جانا ہے اور رہ فانی ہے بالکل پانی کے بلبلے کی طرح۔ دُنیا کا سب سے حسین جملہ ”لیکن میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ اور دُنیا کا سب سے تکلیف دہ جملہ ”میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن۔۔۔۔۔؟“ یاد رہے کہ الفاظ ہر گز نہیں مارتے۔ اُن کی ترتیب مار دیتی ہے۔ راستے پر کنکر ہوں تو اچھا جوتا پہن کر چلا جا سکتا ہے اوار اگر جوتے میں ایک بھی کنکر آ جائے تو شفاف راستوں پر چلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ لہذا انسان باہر کی مشکلات سے نہیں اپنے اندر کی کمزوریوں سے ہارتا ہے۔ تکبر سے پاک گفتگو، لالچ سے پاک خدمت اور خود غرضی سے پاک دُعا سچے رشتے کی دلیل ہے۔سچے رشتے بنائیں جو آخرت کا کل سرمایہ بن کر ہمارے سامنے آئیں۔ اگر ایسا کریں گے تو اسی دُنیا میں اچھی صحت، وسیع رزق اور شفائے کاملہ عطا کر دی جائے گی اور اگر ربّ کی ذات یہ سب نہیں دیتی تو اس کا مطلب جنت میں بے تحاشہ مل کر رہے گا کیونکہ اللہ کی ذات جب دیر سے دیتی ہے تو بے بہا دیتی ہے۔ جو لوگ سچے رشتے بناتے ہیں وہ کامل ایمان والے ضرور ہوا کرتے ہیں۔ بے ایمان آدمی ہمیشہ چھوٹے رشتے استوار کرتا ہے۔ اگر ہم کسی کو اُس کی مصیبت کے دنوں میں کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم اُس کے پاس بیٹھ کر جملوں اور باتوں سے اُس کی دلجوئی تو کر سکتے ہیں۔صرف ایک جملہ سُن کر اگر کوئی شخص اُمید والا ہوجائے تواُس کا اجر بے حد ہے۔ مثال کے طور پر کسی کے مشکل دنوں کے دوران اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ”اللہ بہتر کرے گا“۔ خدا کی قسم و ہ بہتر ہی کرے گا اور کرتا ہے۔ جاتے جاتے ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ”اگر جھکی ہوئی گردن سے موبائل میں اجنبی لوگوں سے رشتے جڑ سکتے ہیں تو حقیقی رشتوں کو بچانے کے لیئے گردن جھکانے میں کیا قباحت ہے“۔

اپنا تبصرہ بھیجیں