گرداب سے نکلنے کی جستجو

یوں تو وطنِ عزیز کو بحرانوں کی آماجگاہ بنے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں جو سیاسی ہیجان، معاشی ابتری اور سماجی انارکی کا طوفان اٹھا ہے، اس نے ریاستی ڈھانچے کو نہ صرف جھنجھوڑا ہے بلکہ عام شہری کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

یہ دلدل محض بیانیوں کی جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس سوچ کا شاخسانہ ہے جو مفادات کے تحفظ کو نظریات پر ترجیح دیتی ہے۔سوال یہ نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، سوال تو یہ ہے کہ ہم یہاں تک پہنچے کیسے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہاں سے نکل سکتے ہیں؟ اگر نکل سکتے ہیں تو کیسے؟

موجودہ صورتحال پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو سیاست دان ایک دوسرے کی کردار کشی میں مصروف ہیں، ادارے اپنی حدود میں رہنے کے بجائے متوازی اقتدار کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں

اور عوام ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں روزمرہ کی ضروریات بھی خواب بن چکی ہیں۔ ایسی فضا میں اگر کوئی خواب دیکھتا ہے تو یا تو پاگل سمجھا جاتا ہے یا غدار۔مگر خواب دیکھنے والے ہی تاریخ کا رخ موڑتے ہیں۔

سیاسی تناو کی موجودہ کیفیت دراصل عدم برداشت، ذاتی انا، اور اجتماعی دانش کے فقدان کی پیداوار ہے۔ ہر فریق خود کو نجات دہندہ اور دوسرے کو تباہی کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔

یوں ریاست ایک ایسے میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں جیتنے والا بھی ہارا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ جب دھرتی پر خون بہے، جب اداروں کی ساکھ مجروح ہو، جب عوام بھوک سے بلک رہے ہوں تو فتح کا جھنڈا بھی بیرنگ ہو جاتا ہے۔

ہمیں اس گرداب سے نکلنے کے لیے پہلے اپنی سوچوں کی تطہیر کرنی ہوگی۔ سیاست کو خدمت کا ذریعہ سمجھنا ہوگا، نہ کہ اقتدار کی ہوس کا ہتھیار۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا

کہ اختلافِ رائے غداری نہیں بلکہ جمہوریت کی بنیاد ہے اور جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں،بلکہ ایک مسلسل مکالمے کا عمل ہے جہاں ادارے، عوام اور قیادت سب ایک پیج پر نہ سہی، ایک صفحے کے مختلف حروف ضرور ہوں۔

ملک کو اس نازک موڑ سے نکالنے کے لیے سب سے پہلے اعتماد کی بحالی ناگزیر ہے۔ اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔

عدلیہ کو غیرجانبداری کا علم بلند رکھنا ہوگا۔ اداروں کو سیکیورٹی کی ذمہ داریوں تک محدود رہنا ہوگا، اور سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتدار آنی جانی چیز ہے، مگر عوام کا بھروسہ ایک بار ٹوٹ جائے تو دوبارہ حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔

معاشی میدان میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ کرپشن کے خلاف بیانیہ کافی نہیں، اس کے خلاف عملی اقدامات ضروری ہیں۔ تعلیم اور صحت جیسے شعبے جنہیں ہر دور میں نظر انداز کیا گیا، انہیں اب ترجیح بنانا ہوگا۔ کیونکہ جو قوم اپنے بچوں کو تعلیم اور علاج نہیں دے سکتی، وہ دنیا میں مقام نہیں پا سکتی۔

میڈیا کا کردار بھی اس نازک صورتحال میں انتہائی اہم ہے۔ صحافت اگر قلم کی حرمت کو تجارتی مفادات پر قربان کر دے تو سچ دفن ہو جاتا ہے۔

ہمیں سنسنی خیزی کی جگہ سچائی، اور نفرت انگیزی کی جگہ شعور کو فروغ دینا ہوگا۔سب سے اہم کام عوام کو کرنا ہے۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں صرف سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے کے بجائے اپنے کردار میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔ ووٹ ایک مقدس امانت ہے،

اسے ذات برادری، زبان یا جذبات کے نام پر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ جب تک ہم ایک باشعور قوم بننے کا فیصلہ نہیں کرتے، تب تک کوئی مسیحا ہمیں اس دلدل سے نہیں نکال سکتا۔دوسری طرف، مفاہمت کا در کھولنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو چاہیے

کہ ایک ”رٹر آف ریکنسلیئیشن“پر اتفاق کریں، جس میں قومی معاملات پر اتفاقِ رائے کو اولیت دی جائے۔ ہمارے ماضی کا سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے

کہ ہم نے کبھی سیکھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ہر بار نئے چہروں کے ساتھ پرانے کھیل کھیلے۔اگر آج بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے، تو اندیشہ ہے کہ یہ سیاسی محاذ آرائی ہمیں کسی ایسے نکتہ لا عود پر لے جائے گی جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستیں بندوق یا بیانیے سے نہیں، انصاف، اتفاق اور عوامی اعتماد سے بنتی ہیں۔

ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مستقبل کے معمار بننا چاہتے ہیں یا ماضی کے اسیر۔ ہمیں وہ بیانیہ تشکیل دینا ہوگا جو نفرت کی بجائے محبت، جنگ کی بجائے امن، اور تقسیم کی بجائے اتحاد کی بات کرے۔ اور یہ سب تب ممکن ہوگا جب ہم”میں“کو ”ہم‘میں بدلنے کی جرات کریں گے۔

آخر میں، بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہر قوم پر برے وقت آتے ہیں، مگر جو قومیں ان وقتوں سے سیکھتی ہیں، وہ تاریخ کا رخ موڑ دیتی ہیں۔ پاکستان ایک عظیم خواب کا نام ہے، اور خواب وہی کامیاب ہوتے ہیں جنہیں جاگ کر تعبیر دی جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب جاگ جائیں۔ورنہ یہ وطن ہم سے روٹھ جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں