پاکستان کے طول وارض میں اس وقت ہاہا کار مچی ہوئی ہے بجلی گیس پٹرول کے ہر روز بڑھتے نرخ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔حکمران و سیاست دان طبقہ عوام کو درپیش سنگین مسائل سے بے نیاز اپنے اپنے مفادات کے تحت اپنی اپنی سیاست میں مگن ہے اپوزیشن جماعت کا فوکس صرف اپنے لیڈر کی رہائی پر ہے اوراتحادی حکومت اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک چلانے کے لیے گیس پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کررہی ہے کہ اپوزیشن اس پر خاموش ہے۔
زندگی کا بہا¶ تیز ہے اور وقت کی رفتار تیر تر وقت کا ساتھ نبھانا مشکل سہی لیکن اس سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ابھی تک اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کرسکے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے رہبروں اپنے منصفوں اور اپنے ہمارے چوکیداروں اور اداروں کے لیے کبھی بھی اہم نہیں رہے۔عوامی مشکلات اور ان کے حل کے لیے بنائے جانے والے اداروں کی عوام کبھی ترجیح نہیں رہے۔ہر ادارہ اور اس میں بھاری تنخواہیں وصول کر ے والے افسران اپنے فرائض کی ادائیگی میں کبھی مخلص نظر نہیں رہے۔
اگر ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو عوام کی مشکلات بخوبی حل ہوسکتی ہیں اس وقت بڑھتی مہنگائی عوام کے سوہان روح بنی ہوئی ہے اس پر مزید زیادتی یہ کہ مارکیٹ کمیٹی کی جانب سے جاری ریٹ لسٹوں پر عمل درآمد کروانے کے مجاز افسران کی نااہلی اور چشم پوشی کے باعث ناجائز منافع خوری اور گراں فروشی اپنے عروج پر ہے پورے ملک کی طرح گوجرخان بیول اور گرد ونواح میں دوکاندار سرکاری ریٹ لسٹ کو خاطر میں نہیں لاتے۔
مارکیٹ کمیٹی کی جانب سے بیول میں لگ بھگ بارہ ایک بجے لسٹ پہنچائی جاتی ہے جب قریب وجوار کے لوگ سواد سلف خرید کر گھروں کو واپس جاچکے ہوتے ہیں۔متعدد شکایات ہیں کہ چھوٹے بڑے گوشت سبزی فروٹ چکن کے علا¶ہ دیگر اشیاءخورونوش کی قیمتیں سرکاری لسٹ سے میچ نہیں کرتی۔اسی طرح گیس سلنڈر پر بھی اضافی رقم وصول کیے جانے کی شکایات تواتر سے سامنے آرہی ہیں۔دوسری جانب محمکہ فوڈ کے اہلکار مختلف اوقات میں بیول آمد پر دوکانداروں پر جرمانے عائد کرتے ہیں لیکن یہ جرمانے قیمتوں کے حوالے سے نہیں کیے جاتے بلکہ صفائی ستھرائی اور دیگر الزامات کے تحت کیے جاتے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ پرائس کنڑول کے مجاز ادارے قیمتوں کے تعین کردہ سرکاری ریٹ لسٹ پر چیک کا مربوط نظام وضع کریں تاکہ ناجائز منافع خوری کو روکا جاسکے لیکن اس کے لیے خوردہ فروشوں کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے ہول سیل ریٹوں کو پرکھنا جائے اور ان کے مطابق ریٹ لسٹ جاری کی جائے۔ تاکہ خوردہ فروشوں کو ناجائز تنگ کیے جانے کا تاثر قائم نہ ہوسکے۔لیکن جہاں اداروں میں تعینات افراد کسی باز پرس سے مبرا ہوں وہاں اس قسم کی امید رکھنا شاید دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔
طالب حسین آرائیں