گداگری کے ناسور نے معاشرے کو اپنے مضبوط حصار میں لے رکھا ہے بازاروں لاری اڈہ،ہسپتالوں اور شادی کے مواقع پر پیشہ ور بھکاریوں کی بھر مار ہے موجودہ دور میں بھکاریوں نے بھی جدید طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے
بھیک مانگنے کے نت نئے طریقے ایجاد کر لیے ہیں پیشہ ور بھکاریوں کے ہینڈلرز کسی ایک معذور شخص کو گاڑی میں بیٹھادیتے ہیں ساتھ ریکارڈنگ بھی لگی ہوتی ہے
اور بازاروں اور گلی محلے میں گھوم کر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں ہمارے ملک کی 24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں
جس میں 12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور بقایا 6 فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850 روپے ہے روزانہ بھیک کی
مد میں یہ بھکاری 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں قابل افسوس بات یہ ہے کہ بعض خدمت خلق کی تنظیموں اور حکومتی سرپرستی میں مفت دستر خوان لگائے جاتے ہیں
اور ہر خاص و عام ان دسترخوان سے کھانا تناول فرماتے ہیں دسترخوان چلانے والوں کو یہ خبر تک نہیں ہوتی کہ اصل میں اسکا حقدار کون ہے حقیقت میں دسترخوان لگانے کی روایت ہی نہیں ہونی چاہیے اس عمل سے محنت کی بجائے مفت خوری کی عادت پڑ جاتی ہے سچ بات تو یہ ہے
کہ اگر ہمارے رشتہ داروں گاؤں محلے میں رہائش پذیر یتیموں بیواؤں کو مالی اعانت یا نان نفقہ کی ضرورت ہو تو ہم میں سے کوئی بھی انکی داد رسی یا خبر گیری کرنے کو تیار نہیں اگر کچھ کر بھی دیتے ہیں
تو جب تک اس خدمت کی تشہیر نہ ہو جائے چین نہیں آتا یقیناً ایسے کاموں میں خودنمائی اور تشہیر کرنا ہمارا معمول بن چکا ہے بھیک مانگنا موجودہ دور میں اب ایک منافع بخش پیشہ بن چکا ہے
بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے بازاروں میں بھی بھکاریوں کی بھرمار ہے جن میں عورتیں بچے جوان اور بوڑھے بھی شامل ہے صبح سویرے انہیں گاڑیوں میں مخصوص جگہوں پر اتارا جاتا ہے
اور شام کو ان بھکاریوں کو اٹھایا جاتا ہے گوجرخان مندرہ کلرسیداں چوکپنڈوڑی کہوٹہ روات مانکیالہ ساگری شاہ باغ کے بازاروں میں ہر روپ میں بھکاری منڈلاتے نظر آتے ہیں
اگر آپ کسی دوکان میں تھوڑی دیر قیام کریں تو یکے بعد دیگرے عورتیں بچے بوڑھے وقفے وقفے سے بھیک مانگنے کیلیے نمودار ہوتے ہیں
تعجب کی بات یہ کہ ہم بحثیت معاشرہ گداگری کی مذمت تو کرتے مگر عملی طور پر گداگری کی حوصلہ شکنی کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر گداگری کے تدارک کیلیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر آتے ہیں
بھکاری گروہ کے سرکردہ کارندے لاوارث اور گھر سے بھاگے ہوئے بچوں عورتوں اور ادھیڑ عمر مردوں کو اپنے جال میں پھنسا کر روٹی رہائش کا چکمہ دے کر اپنے گروہ میں شامل کر لیتے ہیں
کچھ عرصہ قبل راولپنڈی پولیس کے ملازم محمد مستقیم کو بھیک مانگتے ہوئے اپنے ہی بیج میٹ پولیس اہلکار نے پہچان لیا تھا فورآ پولیس کی مدد طلب کرکے نوجوان کو اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد کرا لیا
تھا اس دوران گینگ کی تین خواتین کو بھی حراست میں لیا گیا تھا 6 سال تک بھکاری گروہ اس نوجوان سے بھیک منگواتے رہے مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ خوبرو نوجوان ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہو چکا ہے
اور چلنے پھرنے کے بھی قابل نہیں رہا ایسے بھیک منگوانے والے بے رحم گروہوں کو سخت سے سخت سزا تجویز کرنے کی ضرورت ہے تاجر تنظیموں کو بھی گداگری کی بھرپور انداز میں مذمت کرنی چاہیے
اور شہروں اور بازاروں میں انکے بھیک مانگنے پر مکمل پابندی عائد کیجائے کیونکہ ان مافیا کی تحویل میں بے شمار جوان عورتیں بچے اور بوڑھے جسمانی اور ذہنی معزوری کا شکار ہو چکے ہیں
جہاں عوامی طور پر بھیک مانگنے والوں کے خلاف بائیکاٹ مہم کی ضرورت ہے وہاں ریاستی قانون کا اطلاق زیادہ اہم ہے مگر عوامی اور ملکی سطح پر بھکاریوں کو پرموٹ کرنے والے عناصر کے خلاف تادیبی کاروائی کا فقدان نظر اتا ہے
جسکی بنا پر ایسے عناصر کے نیٹ ورک میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ کبھی کبھار قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بھکاریوں کے خلاف وقتی کریک ڈاؤن تو کرتے ہیں
مگر انکے ہنڈلرز کے قلع قمع کیلیے دیرپا اور موثر اقدامات فی الحال دیکھنے میں نہیں آئے تاہم بحثیت معاشرہ ہمیں چاہیے کہ بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں
اور اپنے رشتہ داروں یتیموں بیواؤں اور حقیقی معنوں میں ضرورت مندوں کی مالی اعانت کریں جو ہماری مدد کے اصل حقدار ہیں