بابرسلیم /پاکستان کی دیہی علاقوں بالخصوص خطہ پوٹھوار کی قدرتی خوبصورتی کا ذکر کیا جائے توبیشمارعلاقے ایسے ہیں جہاں قدرت نے اپنے حسین نظارے قید کیے ہوئے ہیں ”کیرل”گاؤں کاشماربھی ایسے ہی علاقوں میں ہوتا ہے تحصیل کہوٹہ سے منسلک یہ گاوں تقریباً ڈیڑھ صدی سے آبادہے اس کی خوبصورتی کی یہ ضمانت ہے کہ انگریزوں اورہندؤؤں نے اس علاقے میں قیام کیا۔کہوٹہ پنجاڑ چوک کشمیر روڈپر آئیں تودوکلومیٹرآگے لہتراڑ چوک ہے لہتراڑچوک سے بائیں طرف روڈپرکچھ سفرکے بعد کھڈیوٹ چوک آتاہے کھڈیوٹ چوک سے سامنے والی سڑک کیرل گاؤں کی طرف جاتی ہے اس سڑک پرآدھے گھنٹے کی مسافت پرکیرل گاؤں واقع ہے گھنے جنگلات اوروسیع وعریض پہاڑوں کاسینہ چیرتی ہوئی یہ سڑک کیرل سٹاپ پرجالگتی ہے راستے میں قدرت کے بیشمار حسین وجمیل مناظرہیں کیرل کے جنگل سے ہی پہاڑی سلسلہ نکلتاہے جونڑھ پنج پیرکوجالگتا ہے۔سٹاپ سے کچھ ہی فیصلے پر ایک چشمہ واقع ہے جس کو بُبُڑِی کے نام سے جاناجاتاہے اس چشمے میں 12 ماہ پانی رہتاہے۔ خشک سالی کے موسم میں مقامی لوگ یہی سے ضرورت کاپانی لیکے جاتے ہیں اس چشمہ کاپانی نہایت ستھرا ٹھنڈااورمیٹھاہوتاہے طویل عرصہ سے لوگ اس چشمہ کاپانی استعمال کررہے ہیں۔ کیرل سٹاپ پرایک پرانی روایت کی پتھروں اور کچی مٹی سے بنی ہوی دکان بھی ہے جہاں پر ضروریات زندگی کی کم ہی چیزیں میسرہوتی ہے اور یہی ایک دکان اس گاؤں کی کل مارکیٹ ہے۔گاوں میں داخل ہوتے ہی سامنے سکول کی بلڈنگ نظرآتی ہے یہ سکول ڈیڑھ صدی سے علم کی روشنی پھیلارہا ہے۔شروع میں یہ دو کمروں پر مشتمل کیرل کا واحدمرکزتھاجوجہالت کے اندھیروں سے تنے تنہالڑتارہاوقت کیساتھ ساتھ بہتری آتی گئی اوراب یہ سکول تقریبا سات کمروں پر مشتمل ہے مگر منتخب نمائندوں کی نااہلی کے باعث اس سکول کومڈل سے ہای کادرجہ نہ مل سکاحالا نکہ گاوں سکول کی بلڈنگ اور مستقبل کے ستارے چیخ چیخ کے اس چیز کامطالبہ کررہے ہیں اس سکول کے پاس سے ہی راستہ کالی سر زیارت کو جاتاہے کیرل گاوں میں داخل ہوتے ہی سرسبزوشاداب کھیت گھنے درخت بہتی آبشاریں اور پرانی روایات پر بنے انتہائی خوبصورت مکانات آپکواپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔گاوں کے عین درمیان میں ایک علاقہ”لمب“ کے نام سے جاناجاتا ہے جوکھیتوں پر مشتمل ہے گاؤں کے لوگ اس علاقے میں کھیتی باڑی کرتے ہیں تقریباً ساراسال اس میں ہریالی رہتی ہیں۔ یہاں پردو فصلیں ”گندم اورکپاس اگائی جاتی ہیں یہی پردو کافی پرانے کنو یں موجودہیں جو طویل عرصہ تک گاں والوں کی اپنی کی ضرورت کوپوراکرتے رہے اس کے علاہ مال مویشی پالناگاؤں والوں کاروزگار ہے گائیں بھینس اوربکریاں یہاں کے لوگ کثرت سے پالتے ہیں گاؤں میں واقع تین مسجدیں بھی قابلِ ذکرہیں جن میں ایک کیرل سٹاپ سے کچھ دوری پرواقع ہے جہاں باقاعدگی سے جماعت اورجمعہ کی ادائیگی ہوتی ہے قاری عمران صاحب نے اس مسجدکوآباد کیاہے دوسری مسجد کیرل گاوں کے بلکل وسط میں واقع ہیں اور تیسری مسجد ”کالی بن” کی آبادی کیلیے بنائی گئی ہے جس کی بنیاد یکم نومبر 1996 میں رکھی گئی۔گاؤں کا آخری علاقہ ”کالی بن” کے نام سے جاناجاتاہے یہ علاقہ کیرل کی خوبصورتی کو چارچاند لگاتاہے گھنے درختوں پھوٹتے چشموں اورگرتے جھرنوں والا یہ علاقہ ہرآنیوالے کو خوش آمدیدکہتاہے انتہائی حسین مناظرجو ہر انسان کو اش اش کرنے پرمجبور کرتے ہیں گاوں کیاکثر لوگ یہی سے مویشیوں کیلیے پانی کی کمی کوپوراکرتے ہیں۔ کالی بن کے پاس واقع ریسٹ ہاؤس جس کی بنیاد 1907 میں رکھی گئی گزشتہ ایک صدی سے قائم و دائم ہے کہا جاتاہے کہ یہاں پرانگریزافسران قیام کیا کرتے تھے یہ انتہائی پرانی عمارت طویل عرصہ تک محکمہ جنگلات کے دفتر کے طورپربھی استعمال ہوتی رہی چیڑ کے درخت نے کیرل کے جنگلات کواپنے حصار میں لے رکھاہے اس کے علاوہ پلا، قہو،ٹال،اور بیری کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہیں ہر سال آگ لگنے کے باعث ان درختوں کو شدیدنقصانات کاسامنا کرنا پڑتاہیں نایاب درختوں کیساتھ ساتھ بہت سے نایاب جانور بھی ان جنگلات کاحصہ ہیں جن میں ہرن شیر،خرگوش جنگلی بکریاں شامل ہیں پرندوں میں مور،تیتر، بٹیراورجنگلی مرغیاں قابل ذکر ہیں سہولیا ت کافقدان ہونے کے باعث کیرل کاحسن ماندپڑنے لگاہے مقامی لوگ بہتر روزگار،بچوں کی تعلیم اور علاج کے حصول کیلیے ہجرت کرنے پر اجباری ہیں۔
203