کیا اسلامی دور حکومت میں ہندو غلام تھے؟ ضیا ء الرحمن ضیا ء کی تحریر

مسئلہ کشمیر ستر سال پرانا ہے، ابتداء میں دنیا کی کچھ توجہ اس طرف رہی لیکن رفتہ رفتہ عالمی برادری اس مسئلہ کو بھول چکی تھی۔ عصر حاضر میں اس مسئلہ کی طرف عالمی برادری کی توجہ اس وقت ہوئی جب گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے لیے ثالثی کی پیشکش کی۔ جس پر پاکستانی قوم بہت خوش ہوئی لیکن ہندوستان کی طرف سے کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا کیونکہ وہ اندرون خانہ کوئی اور کھیل کھیلنے جا رہے تھے۔ پھر 5اگست کو جب مودی سرکار نے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرنے کی انتہائی مذموم اور گھناؤنی سازش کی تو یہ مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا۔ پاکستان نے اس مسئلہ کی طرف پوری دنیا کے ممالک بشمول امریکہ اور اقوام متحدہ کو متوجہ کیا اور انہیں اپنے وعدے اور قراردادیں یاد دلائیں۔ بظاہر تو ان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف ہی محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ جس کی واضح مثال وہ مضمون ہے جو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ”مودی نے کشمیر پر قبضہ کر کے مسلمانوں سے ہندوؤں کی طویل غلامی کا انتقام لیا“۔ اس طرح کے حربے اختیار کر کے یہ عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم حکمرانی کے دور میں ہندو غلام تھے حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوؤں اور تمام اقوام کے ساتھ غیر امتیازی سلوک کیا۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستان بہت سی اقوام اور قبائل پر مشتمل ایک وسیع و عریض اور غیر مہذب ملک تھا۔ مسلم حکمرانوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق اس ملک کو سنوارا اور اسے ایک مہذب اور ترقی یافتہ ملک بنا دیا۔ اس دور میں ہندوستان سب سے زیادہ دولت مند ملک خیال کیا جاتا تھا۔ یہاں سونے چاندی کی بہتات تھی۔ یہ ایک سرمایہ دار ملک تھا۔ ہندوستان پوری دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال اور پرامن ملک تھا۔ یہاں بڑے بڑے کاریگر ہوتے تھے جو ہندوستان کے خام مال سے بہترین اشیاء تیار کر کے پوری دنیا میں برآمد کرتے تھے۔ ہندوستان میں بہت سے فاتح آئے اور یہاں کی دولت لوٹ کر چلتے بنے لیکن مسلمان فاتحین نے ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا یوں ہندوستان کی دولت ہندوستان میں ہی رہی۔ مسلم حکمرانوں نے اس ملک کو بہت ترقی دی یہاں تک کہ اسے ”سونے کی چڑیا“ کہا جانے لگا۔ مسلمان حکمران یہاں کے اصلی باشندے بن کر رہنے لگے اور اپنے وطن اصلی سے تعلق منقطع کر لیا۔ انہوں نے یہاں کے اصلی باشندوں کو بھی امور حکومت میں شریک کر لیا۔ انہوں نے ہر قسم کے عہدے وزار تیں ، سپہ سالاری اور تمام انتظامی اور فوجی عہدے بلا لحاظ نسل و رنگت، مذہب و وطنیت مفتوح اقوام کے قابل افراد کو عطا کیے۔ انہوں نے ہندوؤں کو مہا راجہ اور تعلق دار بنایا۔ انہیں بڑی بڑی ریاستیں دیں اور بڑے بڑے عہدوں پر مقرر کیا۔ ایک بنگالی رہنما کہتا ہے کہ ”اورنگ زیب کے عہد حکومت میں بنگال کے ہندوؤں کو منصبداری اور بڑی بڑی جاگیریں عطا کی گئیں۔ انہیں ذمیندار بنایا گیا۔ اورنگزیب نے ہندوؤں کو گورنر اور وائسرائے بنایا۔ یہاں تک کہ اس نے خالص مسلم صوبہ افغانستان پر بھی جو نائب السلطنت مقرر کیا تھا وہ ہندہ راجپوت تھا۔“ اس زمانہ میں مخلوط نظام تھا۔ مسلم حکمرانوں کی وسیع نظری کی وجہ سے تمام لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ مسلمان حکمرانوں کے عدل و انصاف اور رعایا کے ساتھ مساوی سلوک کی گواہی بہت سے انگریز مصنفین نے بھی دی ہے ۔ چنانچہ ایک فرانسیسی مصنف کہتا ہے کہ رعایا کی حفاظت اس طرح کی جاتی تھی جس طرح بادشاہ اپنے خاندان کے افراد اور اہل و عیال کی کرتے تھے۔ کسی عہدیدار کی طرف سے رعایا پر دست درازی کو گوارہ نہیں کیا جاتا تھا۔ لارڈ ولیم اس بات کا معترف ہے کہ بہت سی باتوں میں اسلامی حکومتیں انگریزی راج سے کہیں بہتر تھیں۔ مسلمان اس ملک میں آباد ہو گئے جسے انہوں نے فتح کیا تھا وہ ہندوستانی باشندوں میں گل مل گئے، انہوں نے ہندوستانی قوم کو ہر طرح کے حقوق دیے۔ فاتح اور مفتوح کے مذاق، دلچسپی اور ہمدردی میں یکسانیت تھی۔ کوئی فرقہ نہ تھا۔ بخلاف انگریزی پالیسی کے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ جہاں خود غرضی اور بے پرواہی ہے کاروبار حکومت میں ہندوستانیوں کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اسی طرح ہندو پنڈت سندر لال اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اکبر، جہانگیر، شاہجہان اور ان کے بعد اورنگزیب کے تمام جانشینوں کے زمانہ میں ہندو اور مسلمان یکساں حیثیت رکھتے تھے۔ دونوں مذاہب کی مساویانہ توقیر کی جاتی تھی اور مذہب کی خاطر کسی کے ساتھ کسی قسم کی جانبداری نہ کی جاتی تھی۔ ہر بادشاہ کی طرف سے بے شمار مندروں کو جاگیر اور ہندوؤں کو معافیاں دی گئیں۔میجر باسو لکھتا ہے کہ رعایا کی خوشحالی اور سرمایہ داری کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کا دور حکومت سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ دولت مندی اور آرام و چین کا جو نقشہ شاہجہاں کے وقت میں دیکھنے میں آتا تھا بلاشبہ بے مثل و بے نظیر تھا۔
یہ ان لوگوں کے اقوال ہیں جنہوں نے مسلم دور حکومت کا غیر جانبداری سے مطالعہ کیا۔ اس قسم کے ہزاروں شواہد تاریخ کی کتب میں ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے محکوم و مفتوح رعایا کے ساتھ کس قدر منصفانہ سلوک کیااور انہیں ہمیشہ خوشحال رکھا۔یہ مسلم حکمرانوں کا عدل و انصاف ہی تھا جس نے ہندوستان کو دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال اور پر امن ملک بنا دیا تھا۔ مگر بعد کے بہت سے متصب اور اسلام دشمن لوگوں نے اپنی مرضی کی تواریخ درج کرائیں یہاں تک کے عادل مسلمان بادشاہوں کو بھی ظالم اور لٹیرے قرار دے دیا۔ لیکن بہت سے لوگ جن میں سے چند ایک کی مثالیں اوپر بیان ہوئیں، ایسے بھی تھے جنہوں نے حقائق بیان کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس کے باوجود تعصب رکھنے والے افراد متعصب اور کاذب مؤرخین پر بلاتحقیق اعتماد کر کے عادل مسلم حکمرانوں کو بدنام اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن کی ایک مثال واشنگٹن پوسٹ کا وہ حالیہ مضمون ہے جس میں مسلم دور حکومت میں ہندوؤں کو غلام کہا گیا ہے جو کہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے کیونکہ مسلمانوں حکمرانوں نے کبھی بھی ہندوؤں سے غلاموں جیسا سلوک نہیں کیا۔ ہاں انگریز حکمرانوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ ضرور مساوی سلوک کیا اور اپنے اپنے ادوار میں مسلمانوں پر بہت ستم ڈھائے اور آج بھی ڈھا رہے ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتے۔

zia.ur.rehman202@gmail.com

اپنا تبصرہ بھیجیں