کیاہم آذاد ہیں

{jcomments on}اس دفعہ ہم نے اپنا  66 واں یوم آزادی منایا وہی روایتی جوش و خروش سڑکوں پر نوجوانوں کی ون ویلنگ ،خواتین کے ساتھ بد تمیزی، قائد ا عظم کے مزار کی بھی بے حرمتی کی اور اس پر یہ کہ میرے ایک دوست کا یہ تجزیہ کہ یہ سب انٹرٹینمنٹ ہے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں آج میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں وہ آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا آپ سے راہنمائی کا طلبگار ہوںآزادی کا مطلب مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا  آزادی کا مطلب صرف حکومتی سطح پر آزاد ہونا ہے ؟ آزادی کا مطلب کا صرف نقشے میں ایک ملک کا اضافہ ہے ؟ آزادی کا مطلب اپنی ایک علیحدہ فوج رکھنا ہے ؟ تو پھر تو ہم آزاد ہیں ، اقبال کے خواب کی تعبیر بھی ہم نے کر دی ہے اور قائد کے افکار پر بھی عمل پیرا ہیں مگر جہاں تک  میرے اساتذہ نےمجھے سکھایا ہے کہ آزادی نام ہے خود مختاری کا ، آزادی نام ہے معاشی پالیسیوں کی آزادی کا ، آزادی نام ہے اپنی بنائی ہوئی خارجہ پالیسی کا جو کہ عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق بنائی گئی ہو ، آزادی نام ہے لوگوں کی مذہبی رواداری پر مشتمل معاشرے کا ، آزادی نام ہے برابری کے حقوق کا ، آزادی نام ہے یوٹیلیٹی بلوں کی قابل برداشت ادئیگی کا۔ اور میرے خیال میں اقبال نے خواب بھی اسی کا دیکھا تھا اور قائد کے افکار کی تعبیر بھی یہی ہے ۔اگست14 , 2013 کو میں نے ایک چینل پہ (سٹیل ٹیم سکس)  فلم دیکھی اور اتنا زیادہ شاک ہوا کہ حالت آپے سے باہر ہوگئی جن لوگوں نے وہ فلم دیکھی ہے وہ بہتر طور پہ جانتے ہیں کس طرح اس فلم میں جو کچھ دکھایا گیا وہ حقیقت کے کتنا قریب ترین لگتا ہے۔ کس پیشہ ورانہ طریقے سے امریکی انٹیلی جنس اداروں نے ہمارے لوگوں کا استعمال کیا اور اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ،یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیوں وہ لوگ امریکہ کے اس کھیل کا حصہ بنے اور اپنے ملک کے ساتھ غداری کی ؟ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہماری حکومت اس تمام کھیل سے بے خبر تھی اور ہمارے حکمران چین کی نیند سو رہے تھے ، اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس آپریشن کے لیئے امریکی سی آئی اے نے کم و بیش 3 مہینے تک تیاری کی اور اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا یہ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کے کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوال ہے جسکا بہر حال انکو احساس ہو گیا ہوگا میں یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ مجھے اپنے ملک کی سیکورٹی اداروں پر مکمل اعتماد ہے مگر مقدس گائے کسی کو نہیں مانا جا سکتا چاہے وہ کوئی بھی ادارہ ہو اوربات جب ملکی سالمیت کی ہو تو پھر تو اور بھی زیادہ لازم ہو جاتا ہے کہ تنقید کی جائے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جائے نیز تنقید کا مقصد سب کو یہ باور کروانا بھی ہے کہ پاکستانی عوام آنکھیں بند کر کے اب کسی پر یقین نہیں کرے گی۔پوری دنیا آگے بڑھنے کی سوچ رہی ہے اور میرٹ پر تعیناتیاں کی جا رہی ہیں اگر کوئی غلطیاں ہوتی ہیں تو بحیثیت قوم اور ادارے ان غلطیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے اور ان غلطیوں سے سیکھا جاتا ہے نیز قوم کو اعتماد میں لے کر انکو حقیقت بتائی جاتی ہے اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو اس قابل سمجھا جائے کہ اس کے اوپر اعتماد کیا جائے اور اسکی صحیح سمت میں راہنمائی کی جائے ایک ایسی خارجہ پالیسی بنائی جائے جو کہ عوامی مفادات کا تحفظ کرتی ہو ، جو کہ اس ملک کے بقا کا لازمی جزو بن چکی ہے۔ میاں نواز شریف کی جماعت کو قوم نے بھاری مینڈیٹ دیا ہے اب انکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو سچ بتائیں اور نام نہاد امریکی جنگ سے اس قوم کو باہر نکالیں اور اپنی ملکی خود مختاری پر کوئی آنچ نہ آنے دیں نیز قوم کو یہ بھی بتائیں کہ ہمیں اس جنگ میں کتنا نقصان ہوا ہے اس جنگ میں ہمارے 50000 سے زیادہ لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں جس میں سے 2500 کے قریب لوگ ڈرون حملوں میں مارے گئے ہیں اور اسکے ردعمل میں 47500 لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں ہمیں امریکی جنگ سے نکل کر اپنے آپ کو ایک خود مختار قوم ثابت کرنا ہوگا اور اسکے بعد ان تمام لوگوں سے بات کرنا ہوگی جو اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اسکے بعد بھی جو لوگ آپ سے لڑنا چاہیں ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے اور انکو ختم کر کے ہی دم لیا جائے کیونکہ یہ لوگ بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں پوری دنیا نے اپنے آپکو ان سے محفوظ کر لیا ہے مگر ہم انکے بہت آسان ہدف  ہیں ۔ ہمیں ایک خود مختار ملک کی طرح بھارت ، امریکہ اور دوسری طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا ہونگے جب تک ہم آزادی کے ان بنیادی پہلوؤں ہر غور نہیں کریں گے ہم مذید پستیوں میں گرتے چلے جائیں گے۔ ہمارے مسائل بہت گھمبیر ہیں مگر ہم خوش قسمت ترین قوم ہیں کہ ہمارے ان تمام مسائل کا حل موجود ہے اور اگر ہم خلوص نیت سے انکو حل کرنے کی جانب توجہ دیں تو ہم بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑے ہونگے میں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان دنیا کےان چند ممالک میں شامل ہے جسکے پڑھے لکھے لوگوں کی پوری دنیا میں قدر ہے۔ صرف سیاحت کو فروغ دے کر ہی ہم اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں ہمارے ملک میں دنیا کا بہتریں نہری نظام موجود ہے اپنی زراعت اور ڈیری کی مصنوعات کو ترقی دے کر ہم آسٹریلیا جیسے ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ اپنے لوگوں کو ہنر مند بنا کر ہم اپنی آبادی سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں ہم اگر اپنے کوئلے کے برآمد کریں تو اس سے بھی کثیر زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے اسکے علاوہ لاکھوں میگا واٹ بجلی شمسی اور ہائیڈرل ذرائع سے بنا کر برآمد کی جا سکتی ہے۔ لیکن فیصلہ جلد کرنا ہے اور اس فیصلے پر ہنگامی بنیادوں پر عملدرآمد کرنا ہوگا تب ہی ہم حقیقی طور پر آزاد ہونگے اور اپنی آزادی کو مہذب انداز سے منا سکیں گے۔

 

zahid mehmood ( taxila )

 

 

03329515963

اپنا تبصرہ بھیجیں