کہیں ایمان ضائع نہ ہو جائے

چند دن قبل ایک نہایت ہی قبیح و مکروہ اور دلخراش اور تکلیف دہ واقعہ کا ظہور ہوا کہ جب میاں محمد شہباز شریف صاحب اور ان کی کابینہ کے ارکان مدینہ منورہ میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی سعادت حاصل کرنے کے لیے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیرونی احاطہ میں داخل ہوئے تو بہت سارے پاکستانی لوگوں نے چور چور کی نہ صرف صدائیں بلند کیں بلکہ کچھ نے تو حد کر دی کہ زین بگٹی کے بال تک نوچ دیے اور مریم اورنگزیب صاحبہ پر بے ہودہ اور غلیظ آوازیں کسیں یہ سارا غل غپاڑہ بے ہودگی بد تمیزی بد تہذیبی شور شرابہ آوازوں کا بلند کرنا کہاں ہوا ہائے افسوس صد افسوس تم نے یہ سب اس جگہ کیا جہاں پر آواز اونچی کرنے پر تمام اعمال رد ہو جاتے ہیں جہاں پر جبرائیل امین بھی اجازت لے کر آتے ہیں جہاں پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ساکت بے حس و حرکت اپنے سروں کو ایسے جھکائے بیٹھتے تھے کہ پرندے درخت سمجھ کر سروں پر آ بیٹھتے تھے جہاں پر بایزید بسطامی اور جنید بغدادی جیسے کبار اولیاء اللہ اونچا سانس نہیں لیتے کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے یہ سارا کچھ اس جگہ ہوا جہاں پر قدم بھی پھونک پھونک کر رکھے جاتے ہیں کیونکہ یہ قدموں کا نہیں سر کا مقام ہے یہ وہ مقام ہے جہاں ستر ہزار فرشتے صبح ستر ھہار شام کو اترتے ہیں جہاں پر ہر وقت رب کی رحمت کرم فضل بخشش برستی رہتی ہے عاصیان امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیضیاب ہوتی رہتی ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں ہوا تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے شہر میں تو ہوا ناں سنو مدینہ منورہ عام شہروں کی طرح کوئی شہر نہیں بلکہ اسے دیار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہ وہ شہر ہے جو حسن ولطافت کا مرقع اور انوار وتجلیات کا مخزن ہے یہ دراصل خدا کی رحمتوں کا خزینہ ہے اور پُرسکون فضاو ں کی آماجگاہ ہے جس کے ماحول میں رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ سانسیں رچی بسی ہیں اس کا ایک ایک ذرہ نور علی نور ہے اسی لیے حکیم الامت علامہ محمد اقبال جب حصول تعلیم کے لیے انگلستان تشریف لے گئے تو جب آپ کا جہاز عدن کے قریب پہنچا تو آپ نے سرزمین مدینہ سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا اے عرب کی مقدس سرزمین تجھ کو مبارک ہو تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کردیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب وتمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی اے پاک سرزمین تیرے ریگستانوں میں ہزاروں مقدس نقش قدم دیکھے ہیں اس شہر کے بے شمار فضائل ہیں جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمام شہروں کو تلوار کے زور سے فتح کیا گیا اور مدینہ قرآن کے ذریعے فتح ہوا (شعب الایمان) حضرت جابر سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا میں ان دونوں سیاہ پہاڑوں کے درمیان مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں حرم مدینہ کی حدود میں نہ کسی درخت کو کاٹا جائے اور نہ کسی جانور کا شکار کیا جائے (صحیح مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مدینہ میں مرسکتا ہو تو مدینہ میں ہی مرنا چاہیے کیونکہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا (مسند احمد)جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا(صحیح مسلم)حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر دلنواز مدینہ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام
بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا اہل مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا ارادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے(صحیح مسلم) حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اگر میں مدینہ منورہ میں ہرنیاں چرتے دیکھوں تو انہیں حراساں نہیں کروں گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ کے سیاہ پہاڑوں کے درمیان حرمت والی جگہ ہے (صحیح بخاری) امام مالک کے نام مبارک سے تو آپ واقف ہوں گے ناں جو فقہ مالکی کے امام ہیں ان کی ولادت باسعادت 93 ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی آپ نے زیادہ تر زندگی مدینہ طیبہ ہی میں گزاری لیکن کبھی بھی مدینہ طیبہ میں جوتے نہیں پہنے ساری زندگی مدینہ طیبہ میں ننگے پاؤں رہے جب مدینہ کی گلیوں سے گزرتے تو دیواروں سے لگ کر چلتے یعنی دیواروں سے رگڑ کھا کر چلتے کہ کہیں غلطی سے پاؤں اس جگہ نہ لگ جائے جہاں سرکار دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا نعلین مبارک لگا ہو امام مالک کے پاس اعلیٰ نسل کی سواریاں اور اپنے وقت کے بہترین گھوڑے تھے لیکن کبھی مدینہ کی حدود میں کسی سواری پر نہیں بیٹھے خلیفہ منصور کو مسجد نبوی ﷺ میں آواز بلند کرنے پہ ٹوک دیا جس پہ خلیفہ معافی کا طلبگار ہوا قارئین کرام آپ نے پڑھ لیا کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و حرمت تعظیم و تکریم تو مسلمہ ہے ہی مدینہ منورہ اور اس کے باسیوں اس میں بسنے والے جانوروں کی بھی کتنی عزت و احترام ہے آپ جماعتی وابستگی سے بالا ہو کر سوچیں یہ ایمان کا معاملہ ہے یہ لوگ جیسے بھی ہیں آیا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہمان نہیں تھے تم نے شہباز کے ساتھ ایسا نہیں کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کو برا بھلا کہا ہے خود ہی کہتے ہو آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں توبہ استغفار کریں آخری گزارش ہے کہ جب آپ اس مقدس ترین عزت و حرمت والے مقام پر ہوں تو آپ کو اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کون کیا ہے وہ کتنا بڑا مجرم ہے بلکہ آپ کی نظر اپنے اعمال اور سلامتی ایمان پر ہونی چاہیے کہیں انجانے میں ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں