ارسلان کیانی
ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ جس کی قربانیوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس خطے میں بسنے والے انسان کی ہو سکتی ہے۔ چونکہ یہ علاقہ عسکری روایات کا حامل ہے اس لیے اسے صرف سرفروشوں کی زمین کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں گکھڑوں نے تقریباً آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے۔ ان کے آثار آج بھی تین قلعوں کے طور پر موجود ہیں: قلعہ پھروالا، قلعہ روات، اور قلعہ دھان گلی۔ ان کے آخری حکمران سلطان کرم داد خان تھے، جو قلعہ پھروالا سے کہوٹہ کے نزدیکی دوبیرند راجگان میں مقیم تھے۔
چونکہ وہ آنرری مجسٹریٹ، سب رجسٹرار اور ممبر برٹش ایمپیریل کونسل بھی تھے، اس لیے انہوں نے اپنی رہائش جامع مسجد کہوٹہ کی گلی میں بنائی۔ ان کے گھر کے سامنے وسیع میدان تھا جہاں اب کلر چوک یا میلاد چوک کہلاتا ہے، وہ یہاں اپنی عدالت کیا کرتے تھے۔ وہ تعلیم یافتہ اور عوام دوست شخصیت تھے۔ ان کے احباب میں مولانا ہالی، شبلی نعمانی، حفیظ جالاندری، اور علامہ اقبال شامل تھے۔
انہوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے بے حد محنت کی۔ ان کی وفات سے پہلے ہی انہوں نے علاقے میں ڈسپنسری، اسکول، رابطہ سڑکیں اور راستے قائم کر دیے تھے۔ ان کی اولاد میں راجہ حسن اختر شامل تھے جو ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے اور بعد میں پانچ تحصیلوں کے حلقہ قومی اسمبلی سے ممبر منتخب ہوئے، نیز کنونشن مسلم لیگ مغربی پاکستان کے صدر بھی رہے۔ وہ اس بااختیار کمیٹی کے رکن تھے جس نے منگلہ، تربیلا ڈیم اور اسلام آباد کی منتقلی کے فیصلے کیے۔ وہ جنرل محمد ایوب کے قریبی ساتھی بھی تھے۔ ان کا انتقال 16 اکتوبر 1964 کو ہوا، جس پر روزنامہ تعمیر نے کہا کہ ”آج کہوٹہ یتیم ہو گیا“۔
اس کے بعد کئی افراد نے سیاست میں حصہ لیا، جن میں کرنل سلطان ظفر اختر بھی شامل تھے، جن کی سیاسی کامیابی نہ ہوئی لیکن وہ مصنف اور مصنف کے طور پر معروف ہیں۔دیگر نمایاں اور منفرد شخصیت میں باکردار بے داغ شریف االنفس انسان محترم راجہ محمد ظفر الحق شامل ہیں، جنہیں جنرل پرویز مشرف نے فوری طور پر رہا کرایا۔ راجہ محمد ظفرالحق نے کبھی عوامی نمائندگی حاصل نہ کی مگر ان کی شخصیت دیانت دار اور شریف النفس تھی اور اقتدار انکے مقدر میں تھا میاں بردارن نے ہمیشہ انکو صف اول میں رکھا۔
تحصیل کہوٹہ کا بیشتر حصہ سطح مرتضی پر پھیلا ہوا ہے، جبکہ آزاد پتن سے نڑھ تک کے پہاڑی علاقے میں جنگلات کا وسیع علاقہ ہے، جس کی بے دریغ کٹائی ہو رہی ہے۔ کہوٹہ میں ڈاکٹر قدیر خان نے 1967 میں پہلا دورہ کیا اور 1988 میں نمایاں خدمات دیں۔ چوبیس سالوں کی پابندیوں کے باعث یہاں کی نسل مایوس اور بندھنوں میں بندھی ہوئی ہے، خاص طور پر شناختی چیکنگ کی وجہ سے۔ ضلع راولپنڈی کی دیگر تحصیلیں ترقی کر چکی ہیں، مثلاً راولپنڈی، مری، کوٹلی، ستیاں ترقی پذیر ہو گئے ٹیکسلا کو یونیورسٹی ملی ہے اور صنعتیں بھی، گوجرخان کو لندن کے ویزے سے خوشحالی ملی، کلر سیداں کو چودھری نثار علی خان نے ترقی دی، لیکن کہوٹہ آج دو ہزار پچیس میں بھی نظر انداز ہے۔ وزیراعظم اگر چاہتے تو یہاں سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال، یونیورسٹی، موٹر وے اور دیگر ترقیاتی منصوبے دے سکتے تھے لیکن یہ سب ابھی باقی ہیں۔
جنگلات کی کٹائی روکنے کے لیے کہوٹہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قیام ضروری ہے تاکہ پانی کے ذخائر قائم کیے جا سکیں اور پانی گھر گھر پہنچایا
جائے۔ یقیناً کہوٹہ کے مسائل کے حل کے لیے حکومت اور منتخب نمائندگان کو سنجیدگی اختیار کرنی ہو گی۔ آخر میں، ڈاکٹر قدیر خان کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے کہوٹہ کو کالج سے یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے، نوجوانوں کے لیے گرانڈز بنائے جائیں اور منشیات سے بچا کے لیے اقدامات کیے جائیں۔