کہوٹہ ،محرومیوں کا شکار، فریاد کون سنے گا

تحصیل کہوٹہ‘ بابِ کشمیر‘ جو کبھی پُرامن علاقے کی مثال تھی آج جرائم‘ منشیات اور محرومیوں کا گڑھ بن چکی ہے۔ پانی کی بوند بوند کو ترستے لوگ، سال ہا سال سے بنیادی سہولتوں سے محروم۔ سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرز کی اسامیاں برسوں سے خالی، دوائیں نایاب، اوپر سے پرائیویٹ مافیا کا راج عوام کی جیب کٹ رہی ہے۔ ہسپتال میں کوئی اپریشن نہیں ہوتا نہ اپنڈکس، نہ دیگر سیکسرے کی آسامی کئی دنوں سے خالی ڈیجیٹل ایکسرے مشین نہ ہونے جے باعث لڑائی جھگڑے کے کیسز کو کوٹلی ستیاں ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے ہسپتال کو پرائیویٹ مافیا نے سیاست کی بھینٹ چڑھا کر مکمل قبضہ کر کے جان بوجھ کر ناکام بنایا ہے تا کہ لوگوں کو یہ سہولیات میسر نہ ہوں اور وہ ان سے پرائیویٹ ٹیس اور علاج کروائیں۔
سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال کے وعدے کرنے والے سابق وزرائے اعظم اور عوام نمائندگان بجائے اس ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے پرائیویٹ مافیا کو پروموٹ کر رہے ہیں وزیر اعلی پنجاب نے 66 اسپتالوں کو نجی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں کہوٹہ ٹی ایچ کیو ہسپتال بھی شامل کہوٹہ کی بدقسمتی یا نا اہلی کے ہم ایسے نمائندگان کا انتخاب کرتے ہیں جو ہمارے بنیادی حقوق دلوانے کے بجائے چھنوانے والوں کی صف میں نظر آتے ہیں کہوٹہ کا ایک واحد تعلیمی ادارہ کامرس کالج تھا جسکو کلر سیداں شفٹ کر لیا گیا اور اب ٹی ایچ کیو ہسپتال جو کشمیر اور کہوٹہ کے عوام کا واحد سہارہ گو کہ سہولیات نہیں ہیں بجائے سہولیات کی فراہمی کے اسکو بھی نجی کرنے کا فیصلہ ہے جو صاف یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ملک یہ علاقہ غریبوں کے لیے نہیں اشرافیہ کے لیے ہے بہرحال کچھ حلقہ کے عوام اسکی نجکاری پر خوش ہیں کہ ویسے بھی سہولیات ہیں نہیں شاہد نجکاری سے سہولیات آئین اور ہسپتال اپ گریڈ ہو اور پرائیویٹ مافیا کو بھی لگام ڈالی جا سکے مگر غریب لوگوں میں مایوسی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔محکمہ واپڈا میں رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔
محکمہ مال میں پٹواریوں نے کھلے عام اپنی کرپٹ سلطنت بنا رکھی، ہر فرد، ہر دستاویز پر بھاری رشوت کا بازار گرم ہے۔پولیس تھانہ کہوٹہ میں اب ٹاؤٹ مافیا کا راج ہے۔ غیر مقامی اور پرانے اہلکار برسوں سے یہاں تعینات‘ سب جانتے ہیں کہاں منشیات بکتی ہے، کس گلی میں جرم ہوتا ہے لیکن سب خاموش‘کوئی ایکشن نہیں۔گویا کہ ملی بھگت سے ہر جرم پروان چڑھ رہا ہے۔

سکولز اور کالجز تک منشیات پہنچ چکی ہے۔ شہر کی گلی گلی میں بچے اس لعنت کے شکنجے میں ہیں۔تحصیل کہوٹہ کبھی امن کی علامت تھی، آج بدامنی اور غیر یقینی فضا چھا چکی ہے۔ یہاں تعلیم کی کوئی معیاری سہولت نہیں، یونیورسٹی تو دور، بچیوں کے لیے ایک کمپری ہینسیو کالج تھا، وہ بھی شفٹ کر دیا گیا، احتجاج کیا گیا، مگر سنوائی نہ ہوئی۔ تحصیل کہوٹہ کو جان بوجھ کر تعلیمی طور پر پس پشت دھکیل دیا گیا ہے۔
جو تحصیلیں کہوٹہ کے بعد بنیں، وہاں آج روشنیاں، فصلیں اور ترقی ہے، مگر یہاں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔نوجوانوں کے لیے نہ کرکٹ گراؤنڈ، نہ کھیل کے میدان ہیں۔ اس وجہ سے نوجوان فارغ وقت موبائل فونز یا غلط صحبت میں ضائع کر رہے ہیں، جرائم اور نشے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ کہوٹہ پنڈی روڈ، پانچ ارب کا منصوبہ لاپروائی سے چو بیس ارب سے بھی اوپر چلا گیا۔ نہ سڑک بنی، نہ بائی پاس، متاثرین معاوضے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس تک نہیں، حادثے معمول بن چکے ہیں۔ہم وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور تمام اعلیٰ حکام سے بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ خدارا تحصیل کہوٹہ کی غربت، محرومی اور مایوسی کو ختم کر کے یہاں کی ضروریات پوری کی جائیں، تعلیمی، صحت، کھیل اور انفراسٹرکچر کے شعبوں پر فوری توجہ دی جائے ورنہ ناامید نوجوان اور مایوس عوام آئندہ آپ کا احتساب کریں گے۔