77

کھیل سے جیل تک

سابق وزیر اعظم عمران خان عالمی سطح کا کھلاڑی تھا اور وہ کئی سال تک قومی کر کٹ ٹیم کا کپتان رہا اور اسی کی کپتانی کے دوران ہی 1992 ء میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا جس سے اسے ملک بھر میں بے حد عزت اور شہرت ملی اور وہ قوم کا ہیرو بن گیا اپنی مقبولیت دیکھ کر اُس نے اُسی چیز کو ٹارگٹ بنا لیا جو بر صغیر میں دولت اور شہرت حاصل کرنے والوں کی ہمیشہ سے ریت رہی ہے۔

columns

اقتدار کی منزل تک پہنچنے کے لئے وہ بھی سیاست میں داخل ہو گیا۔ دو دہائیوں کی جد و جہد کے بعد اس کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی اور وہ ملک کاوزیر اعظم بن گیا ایک سپورٹس ہیرو اور ملک کے سابق وزیر اعظم کا جیل جانا اور مختلف مقدمات میں سزا یاب ہونا افسوسناک ہے اس المیے کی وجوہات کیا ہیں اور کون کون اس کا ذمہ دار ہے یہ1996ء کی بات ہے جب انہوں نے اپنی پارٹی، تحریک انصاف کو پہلی بار سیاسی دلدل میں اتاراکسی مخلص ساتھی نے ان کو مشورہ بھی دیا کہ آ پ سیاست کی دلدل میں داخل نہ ہوں

کیونکہ آپ اس وقت ایک غیر متناز عہ قومی ہیرو ہیں سیاستدان بن کر آپ متنازعہ ہو جائیں گے اور ملک ایک ہیرو سے محروم ہو جائے گا غیر متنازع ہیرو کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ہاں سیاستدانوں کی تو کوئی کمی نہیں مگر غیر متنازعہ ہیرو نہ ہونے کے برابر ہے یہ مخلصانہ مشورہ انہیں پسندنہ آیا کیونکہ وہ میدان سیاست میں اترنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

دوسرا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ چلیں یہ تہیہ کر لیں کہ آپ اپنی پارٹی میں کبھی کرپٹ لوگوں کو شامل نہیں کریں گے جواب ملا کہ میں کبھی کرپٹ اور بدنام لوگوں کو اپنی پارٹی کو شامل نہیں کروں گا اور میں ایسے لوگوں سے ہاتھ تک نہیں ملاوں گاایسے کئی لوگ میرے ساتھ آنا چاہتے ہیں مگر میں نے انہیں لینے سے انکار کر دیا ہے۔

جنرل مشرف نے ایک منتخب حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو عمران خان جمہوریت کے ساتھ نہیں بلکہ ڈکٹیٹر کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور اس کے بدنام زمانہ ریفرنڈم میں اس کے چیف پولنگ ایجنٹ بن گئے جنرل مشرف کئی انٹرویوز میں بتا چکے ہیں کہ عمران خان مجھ سے وزارت عظمی مانگتا تھا مگر میں نے اسے سمجھا یا کہ تمھاری چھوٹی سی پارٹی ہے ہم تمہیں آٹھ دس سیٹیں دلائیں گے اس پر نا راضگی ہو گئی اور عمران خان مشرف کے خلاف میاں نواز شریف کے ہمنوا بن گئے۔

اس دور میں انھوں نے کئی تقاریر نواز شریف کے حق میں کی وہ بارہا لندن میں ایون فیلڈز کے ان ہی فلیٹس میں جاتے رہے جن کے بارے میں کئی سالوں بعد اچانک اانہیں خیال آیا کہ یہ تو عوام کا پیسہ لوٹ کر خریدے گئے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے میاں نواز شریف کے بیرون ملک قیام کی حمایت کے بارے میں کہا کہ جنرل مشرف ایک ڈکٹیٹر ہے اور ہماری عدالتیں اور جج اس سے ڈرتے ہیں

اس کی موجو دگی میں نوازشریف کو یہاں انصاف نہیں مل سکتا ہے اس لیے انھوں نے باہر جا کر اچھا کیا ہے پرانی ریکارڈنگز دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اس وقت عمران خان میں چالاکی اورعیاری نہیں تھی بلکہ سادگی اور معصومیت تھی اور آئین کی با لا دستی عدلیہ اور میڈیا کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کی باتیں کیا کرتا تھاچودہ پندرہ سال کی جد و جہد کے بعد بھی جب انہیں کوئی پزیرائی نہیں ملی اور پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ایک سیٹ سے نہ بڑھ سکی

تو کچھ ظاہری اور کچھ خفیہ مشیروں نے انہیں کامیا بی کا اصل راستہ دکھایا اور انھوں نے اپنے آپ کو کامیابی دلانے والوں کے حوالے کر دیا اور پھرپیچھے مڑ کر نہ دیکھا اسی خود سپردگی کی اہمیت میں 2014 ء کے دھرنوں میں انہوں نے طاہر القادری کا پارٹنر
بن کر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بننا قبول کر لیا اس کے بعد انھوں نے جمھوریت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے اپنا نا طہ تو ڑ لیا اور جمہوری کلچر کے قیام کے لیے انھوں کے اپنے وعدوں اور دعووں کو اپنے پاوں تلے ر ونڈ ڈالا۔2017ء میں ایک منتخب جمہوری وزیراعظم کو نکالا گیا وہ احتجاج کرنے کے بجائے مٹھائیاں بانٹنے والوں میں شامل تھا

2018ء کا الیکشن عمران خان نے ایک مہرے کی حیثیت سے ساتھیوں کے سہارے، لڑا جس میں اس کے سہولت کاروں نے اس کا پورا پورا ساتھ دے کر جتوایا اور پھر ہر قسم کے حربوں کے بعد اُسے وزیر اعظم کا حلف دلوایا جا سکا ایوان اقتدار میں پہنچ کر اس کی شخصیت کے پر آہستہ آہستہ کھلنے لگے اور چند ہفتوں میں ہی عمران خان کی نا اہلی نے نقاب ہوگئی اور ریاست کے سینئر اورتجربہ کا ر اہلکاروں نے اس کی اہلیت و قابلیت پر سوال اٹھانے شروع کر دئیے اور شکایتوں کے انبار لگنا شروع ہو گئے۔

لاکھوں نوجوانوں نے خواب دیکھے تھے کہ تبدیلی ان کے لئے بہتر مستقبل کی نوید لائے گی۔ عوام سمجھتے تھے کہ نیا پاکستان ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا اور اُن کے زخموں پر مرہم رکھے گا مگر تبدیلی اپنے ساتھ مہنگائی بے روزگاری اور کرپشن کا طوفان لے کر وارد ہوئی اور نئے پاکستان میں پہلے دو سالوں میں خواب کرچی کرچی ہو کر بکھر گئے، باتیہ ہے

کہ آغاز میں عمران خان کے لئے عوام کی اکثریت نے آٹھ فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں رائے دی ہے عمران خان باتیں اور تقریریں تو بہت اچھی کرتے ہیں مگر عمل اور کام اس کے بالکل برعکس کرتے تھے عوام کے جذبات سے کھیلنے اور مذہبی طبقے کو خوش کرنے کے لئے نبی کر یمﷺ اور ریاست مدینہ کا نام لیتے تھے مگر یہ تعلق صرف مذہبی ٹچ تک محدود تھا اس میں اخلاص اور نیک نیتی کا فقدان تھایہی وجہ ہے کہ جب انہیں اقتدار مل گیا اور دینی اقدار کے فروغ کے لئے تعلیم اور میڈیا کی وزارتوں کو اہم کردار دینے کا وقت آیا تو انہوں نے یہ دونوں اہم ترین وزارتیں دین سے نا بلد افراد کے سپر د کر دیں.

تعلیمی نصاب سے اسلام کے متعلق مضامین نکلوا دیے گئے مگر وہ خاموشی سے دیکھتے رہے کرپشن کو صرف سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہے عملی طور پر اپنی اہلیہ اس کی سہیلی اور ان کے فرنٹ مینوں کی لوٹ مار کو پوری طرح تحفظ دیتے رہے اور سر پرستی بھی کرتے رہے اور کرپشن کے کیچڑ کو صرف سیاسی مخالفین کا دامن گندا کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے ۔

بحیثیت وزیراعظم مہنگائی کے خاتمے، قانون کی حکمرانی قائم کرنے یا پولیس اور عدلیہ کے فرسودہ سسٹم کی اصلاح کے لئے ایک میٹنگ بھی نہیں کی لیکن کرپشن کے خلاف نعروں اور اسلامی ٹچ میں کوئی کمی نہیں آنے دی جس سے ان کی دو عملی روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی۔ عمران خان کا کوئی نظریہ نہیں ہے کیونکہ ان کی سیاست کی کوئی فکری بنیادنہیں ہے

اس سے ان کا نظریہ ہر طریقے اور ہر حربے سے اقتدار حاصل کرناہے مگر وہ واحد سیاسی لیڈر ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کا قائل ہے پاکیزہ کردار اور دیگر انسانی خوبیوں کے فقدان کے باوجود بے شمار نوجوان اس کے فین اور فالورز ہیں نوجوانوں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ہمیں شعور اور آزادی دی اور پھر جب پی ٹی آئی لوگوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو بے عزت اور تذلیل کرانے کے لئے مسجد نبوی اور روضہ رسول کے تقدس کا بھی خیال نہ کیا

تو اُس نے گویا رب کائنات کی ریڈ لائن کر اس کردی اور اس کے بعد وہ اللہ کی پکڑ میں آ گیا جس سے نکلنا مشکل دکھائی دیتا ہے اسی جنون میں اس نے نومئی کو فوج میں بغا و ت کرانے کی کوشش کی جو نا کام ہو گئی اب بھی وقت ہے کہ اگر وہ سچے دل سے توبہ کرے اللہ تعالی سے معافی مانگے تو اللہ تعالٰی غفور و رحیم ہے وہ اس کے لئے آسانیاں پیدا کر سکتا ہے ورنہ اسے پچیس کروڑ عوام کے ووٹ بھی مل جائیں اور امریکہ بر طانیہ) اور یورپ مل کر بھی کوشش کریں تو
بھی وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں