کھلی کچہریاں محض ڈرامہ،کوئی عملدرآمد نہیں

قارئین کرام! پوٹھوہاری میں مثال مشہور ہے ”مجھاں مجھاں نیاں پہینڑاں ہونڑیاں“ اردو میں اس کا مطلب ہے کہ بھینسیں بھینسوں کی ہی بہنیں ہوتی ہیں، یہی مثال پاکستان کے ہر ادارے پر نافذ العمل ہوتی ہے، سپریم کورٹ سے لے کر میونسپل کمیٹی تک ہر ادارے میں یہی حالات ہیں،کھلی کچہری کے نام پہ ہونے والے ڈرامے کے حوالے سے تحصیل گوجرخان کے ہی ایک بزرگ سائل نے مجھے چند ماہ قبل آگاہ کیا اس وقت احسن یونس راولپنڈی میں تعینات تھے، ان بزرگ سائل کا جوان بیٹا جو پولیس میں ملازم تھا اور جوان بھتیجا ملزمان نے محض توتکرار کی وجہ سے فائرنگ کر کے قتل کر دیئے، ملزمان نامزد ایف آئی آر ہونے کے باوجود ملک سے بھاگ گئے اور 8/10سال ہوچکے ہیں کہ ملزمان کو گرفتار کر کے پاکستان نہیں لایا جا سکا، وہ بزرگ سائل احسن یونس ڈی آئی جی کے پاس درخواست لے کر گئے اور جب واپس آئے تو مجھے ساری روداد سنائی کہ یہاں تو سب گھن چکر ہے، میں متعدد درخواستیں دے چکاہوں اور وہی درخواست گھوم پھر کر واپس تھانے پہنچ جاتی ہے اور بیرون ملک بیٹھے ملزمان فون کر کے میرا مذاق اُڑاتے ہیں کہ تم نے ہمارا کیا کر لیا، وہ بزرگ کہنے لگے کہ یہ کھلی کچہریاں سب ڈرامہ ہیں، اندازہ کریں کہ پولیس کا حاضر سروس ملازم اور اس کے قاتل ملک سے بھاگ گئے اور تاحال اشتہاری ہیں لیکن پولیس بے بس ہے، میرا بطور صحافی بھی تجربہ ہے کہ گوجرخان میں سی پی او، ایس پی صدر، ایس ایس پی انوسٹی گیشن وغیرہ کی جو کھلی کچہریاں ہوتی ہیں ان میں صرف درخواستیں مارک ہوتی ہیں آج تک موقع پر کسی پولیس ملازم /افسر کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، احسن یونس نے بطور سی پی او راولپنڈی جب کھلی کچہری کا گوجرخان میں انعقاد کیا تھا تب ایک ایس ایچ او اور دو تفتیشی افسران کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے تھے اس کے بعد ان کا کیا بنا؟؟ مثال وہی ہے ”مجھاں مجھاں نیاں پہینڑاں ہونڑیاں“۔ جاتے دسمبر اور آتے جنوری میں اس حوالے سے میرا ذاتی تجربہ ہواہے کہ میں نے ایک پولیس افسر کیخلاف سابق سی پی او راولپنڈی ساجد کیانی کو درخواست دی، وہ درخواست مارک ہوئی اور پانچ یوم بعد انکوائری کیلئے بلایا گیا، پولیس افسرموصوف تو نہ آئے، لیکن ہم نے انکوائری میں اپنے آپ کو پیش کر کے انکوائری افسر کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا جنہوں نے میرٹ پر انکوائری کا یقین دلایا، اس انکوائری رپورٹ کو سی پی او دفتر تک پہنچتے پہنچتے تقریباً 20/25 دن لگ گئے، بعد ازاں اب تک میری درخواست پر کوئی محکمانہ عملدرآمد نہ ہوا اور پولیس میں خوداحتسابی کا دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہواہے۔ایک صحافی کی درخواست اور اس پہ عملدرآمد کیا ہوا وہ نتیجہ آپ خود اخذ کر لیں، باقی عوام کیساتھ کیا ہوتا ہوگا وہ صرف آپ سوچیں بس۔ اسی طرح کی صورتحال ریونیو کچہریوں میں نظر آتی ہے، میں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ ریونیو کچہری میں تحصیلدار، گرداور، پٹواری، اراضی ریکارڈ سنٹر کے خلاف دی جانے والی درخواستوں کو واپس انہی کی جانب بھیج دیا جاتاہے اور موقع پر کوئی حکم جاری نہیں ہوتا اور عوام کو ریلیف نہیں مل رہا، بس فوٹو سیشن کر کے اعلیٰ حکام کو بھیج دیا جاتاہے کہ کھلی کچہری ہوئی اور اتنے سائلین پیش ہوئے جن کے مسائل حل کر دیئے گئے حالانکہ ان میں سے کسی ایک کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہوتا۔ کھلی کچہریوں کا یہ ڈرامہ پولیس، ریونیو محکموں میں تسلسل کیساتھ جاری ہے جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، محکمہ مال کے وزیر موصوف صرف ایک بار گوجرخان تشریف لائے اور فوٹوسیشن کراکر چلتے بنے، انہوں نے دولتالہ میں اراضی ریکارڈ سنٹر کا وعدہ بھی کیا تھا جو ابھی تک ہواؤں میں ہی بن رہا ہے، اسی طرح لاہور سے پولیس کے افسران اچانک کسی جگہ کا دورہ نہیں کرتے، صرف ضلعی افسران سی پی او، آر پی او دورے کرتے ہیں اور صفائی نہ ہونے پر سرزنش کی جاتی ہے، شوکاز نوٹس جاری کئے جاتے ہیں اور رزلٹ وہی نکلتا ہے کہ ”مجھاں مجھاں نیاں پہینڑاں ہونڑیاں“۔ قصہ مختصر یہ کہ ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں