”کوئی مر کے امر ہو گیا “ کشمیر زندہ باد

شاہد جمیل منہاس / دوستو اگر ہم بچ نہ سکےں تو دُعاوں میں یاد رکھنا۔ بے شمار کشمیریوں کے ٹویٹس کا لب لباب یہی جملہ ہے کہ” دوستو اگر ہم بچ نہ سکےں تو دُعاو¿ں میں یاد رکھنا“۔ جس کشمیر کی جُداگانہ حیثیت15 اگست 1947 سے چلی آ رہی ہے اُ س حیثیت کو تن تنہا اکیلا بھارت ختم کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر آئینی حیثیت نہیں بدل سکتی۔ اس وقت پاکستان کے لیئے یہ بہترین موقع ہے کہ دُنیا کو اپنے پرچم تلے جمع کر کے اپنی بات منوا سکے۔ یہ اسرائیلی ماڈل نافذ کرنے پر بھارتی جارحانہ فیصلہ مسترد۔ ہندو بنیئے اور مودی خونخوار جانور یہ سُن لے کہ انڈیا کا کوئی بھی ذاتی فیصلہ یا پسند ہر کسی کا فیصلہ یاپسند ہر گز نہیں ہو سکتی۔ کشمیر کی متنازہ حیثیت کسی صورت ختم نہیں کی جا سکتی۔ نہ جانے کیوں بے شرم اور بے غیرت ہندو فوج یہ بات بھول جاتی ہے کہ پاک آرمی کے چیف کی زبان سے جس وقت لفظ ”فائر“ نکل گیا تو ہندوستان کے گھروں کے غُسل خانون کا پانی بھی سُرخ ہو جائے گا۔ہندوستان مزید70 ہزارڈرپوک جوانوں کو بھیجنے کا ارادہ کر چُکا ہے مگر مُٹھی بھر کشمیری ان سے 1947سے لے کر آج تک سنبھالے نہیں جا رہے تو مزید 70 کروڑ ہی اگرآ جائیں تو کشمیریوں کے ایمان کی قوت کو کم نہیں کر سکتے۔ کشمیری کمزور یا ڈرپوک ہوتے تو نہ جانے کب کے کشمیر چھوڑ کر خانہ بدوشی کی زندگی گُزار رہے ہوتے۔ یہ ایمان اور موت پر یقین ہی ہے جو کشمیری نوجوانوں ، ماو¿ں، بہنوں اور بیٹیوں کو پہاڑ جتنا حوصلہ دیئے ہوئے ہے۔اور یہ جذبہ عددی جذبہ ہر گر نہیں یہ تو معیاری جذبہ ہے۔ ہندو افواج کی تعداد اس جذبے کو ہر گزکمزور نہیں کر سکتی۔ یاد رہے کہ جب کوئی قوم خود کوقُربانی اور شہادت کے لیئے پیش کردے تو اُس کا مقابلہ صرف ایمان والے ہی کر سکتے ہیں لہذٰا دونوں اطراف کی یہ جنگ ایمان کی جیت کی صورت میں سامنے آئے گی۔ اب تک ایک لاکھ 12 ہزار کشمیری شہید ہو چُکے ہیں۔ کشمیری آج بھی ویسے ہی سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ 10 ہزار افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا اور قتل کر دیئے گے مگر آج بھی کشمیری سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ گھر والوں کو ان شہدا کے چہرے دیکھنے بھی نصیب نہ ہوئے مگر کشمیری پھر بھی سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ تقریباً 10 ہزار افراد کو یا تو لاپتہ کر کے مار دیا،یاپاگل کر دیا گیا اوربہت سے معذور کر دیئے گے مگر نڈر کشمیری آج بھی سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ میرایہ قلم خون کی روشنائی سے جو تحریر کر رہا یہ داستان ظلم و ستم اور داستان جبر ہے۔ مگر کیا کروں جب تاریخ رقم ہو گی تو میرا نام بھی اُن افراد میں آئے گاکہ جن افراد نے زمینی خُداو¿ں کے سامنے سرنڈر نہ کیا بلکہ حقیقی خُدا کے خوف کو سامنے رکھ کر حق سچ تحریر کیا۔ 11 ہزار خواتین کو بیوہ کر دیا گیا۔ وہ اس لیئے کہ ان کے سر کے سائیںنہ جانے کتنے عشروں سے لاپتہ ہیں۔دوستو یہ داستان بیان کرتے ہوئے کپکپی طاری ہو رہی ہے کہ اس سارے عرصے کے دوران دو لاکھ کے قریب بچے یتیم ہو ئے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً دو ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ کاروباری مراکز بارود کی نذر کر دیئے گئے۔ ان تمام تر مظالم کے باوجود کشمیریوں کے تحریک آزادی میں رتی برابر بھی کمی نہ آئی۔ بلکہ مزید جوش و شوقِ شہادت پروان چڑھ رہا ہے۔ مودی سرکار کو یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ جب بُرہان وانی کو 8 جولائی 2018 کو شہید کیا گیا تو کشمیریوں کی تحریک آزادی میں مزید قوت اور ولولہ پیدا ہوا۔ باوجود اس کے کہ قیادت کو گھروں اور جیلوںمیں بند کر دیا گیا۔ اس طرح کے حالات میں قومیں مایوس ہو جایا کرتی ہیں مگر کشمیری قوم مزید طاقت کے ساتھ سینہ تان کر کھڑی ہے۔ افسوس صد افسوس امریکی ثالثی پر کہ اس بیان کے بعد کشمیریوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ نہتے کشمیریوں پر حملہ کرنے والی بھارتی فوج اور
حکومت حواس با ختہ ہو چُکی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ مسلمان سپاہیوں ،جوانوں اور افسروں سے اسلحہ واپس لے لیا گیاہے۔ بے ایمان ہندو افواج نے یٰسین ملک جو کے قریب المرگ ہے اُس کو بے ہوشی کی حالت میں قید کر کے تھر تھر کانپ رہی ہے۔ اور بے ہوش یٰسین ملک پر سینکڑوں سپاہیوں کا پہرہ ہے۔ یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔ پوری دُنیا ڈرپو ک ہندو فوج کو خوف ذدہ دیکھ کر مزاق اُڑا رہی ہے۔ آج ہندوستان اپنی طرف سے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرے یا سو حصوں میں۔ یہ تقسیم تقسیم کا کھیل اپنے درمیان تو کھیلا جا سکتا ہے مگر کشمیری اور اقوام عالم اس تقسیم کو ہر گز قبول نہیں کر سکتے۔ اگر اس وقت اقوام متحدہ اپنا کردار خلوص دل سے ادا کر گئی تو اقوام متحدہ کی ساکھ میں خوبصورت اضافہ ہو گااور مزید یہ کہ کوئی بے غیرت اس کے بعد اس طرح کا فیصلہ ہر گز نہیں کر پائے گا۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ اور اقوام عالم اس طرح کسی قوم کے پسند کے فیصلوں پر خاموش رہے تو یہ آگ جنگل کی آگ کا روپ دھار لے گی اور یہ سب رواج کی صورت اختیار کرلے گا۔اور بڑے سے بڑے ممالک اپنی موت آپ مر جائےں گے۔ ہم پاکستانی اور کشمیری گُجرات کے قصائی کو کشمیر کاقصاب ہر گز نہیں بننے دیں گے۔ یاد رہے کے دفعہ 35-A خاتمے سے کشمیر فلسطین بن جائے گا۔ اور اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔ اس وقت کے۔پی ۔کے سے لے کر پنجاب ، سندھ، سرحد اور پورے پاکستان کے نڈر عوام یک جان ہو چُکے ہیں۔ اقوام عالم کا ہر دردِ دل رکھنے والا فرد کشمیر کی بقاءکے لیئے اپنی سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیئے تیار ہے۔ اس وقت پاکستان کے بعد تُرکی دوسرا اسلامی مُلک ہے جس نے کشمیریوں کے لیے میدان میں آنے کا اعلان کر دیا ہے۔ آج مُلک پاکستان کے شہریوں کا ہندوستان کے نام پیغام یہ ہے کہ پاک فوج کی قیادت کی زبان سے بس لفظ ”فائر “ ادا ہونے کی دیر ہے اس کے بعد ہندوستان کے دریاو¿ں کا رنگ سُرخ ہو جائے گا اور پھر معافی کی کوئی گُنجائش نہیں ہو گی کیونکہ مسلمان کا ایمان ہے یہ زندگی عارضی زندگی ہے۔ لہذٰا یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ”کوئی مر کے امر ہو گیا ، کوئی زندہ بھی گمنام ہے“۔

اپنا تبصرہ بھیجیں