کلرسیداں کی سیاست ٹھراؤ آگیا

آصف شاہ‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
کلر سیداں میں چند دن پہلے جو چائے کی پیالی میں طوفان برپا تھا وہ سونامی اپنے اختتام کو پہنچ گیا عام عوامی تاثر بھی یہی پایا جاتا تھا کہ یہ سب ایک ڈراما تھا اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے تھا

اور بالا آخر ایسا ہی ہو اور حالات کا رخ بدلنے کا دعوی کرنے والے اپنی نئی سیاسی مسکراہٹ کے ساتھ دوبارہ میدان میں آنے تو تیار ہو رہے ہیں سیاست کا نام اب ایک بہت ہی عجیب نظریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اس کا اصل مقصد عوام کی خدمت تھا لیکن اب اس کا نظریہ بدل چکا ہے یہ نظریہ عوامی خدمت کے بجائے ذاتی لش پش کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی جمہوریت کی ایک شاندار روایات پر ہم نظر ڈالتے ہیں انتخابات کے بعد دو دھڑے میدان میں تھے اور زور شور سے تیاریاں جاری تھی ان تیاریوں کو بریک اس وقت لگی جب اس حلقہ کی راج بھاگ کے شہنشاہ معظم نے حکم صادر فرمایا کہ ہمارے حکم کے بغیر کوئی کام نہ ہوگا اب ان کے حکم کی سرتابی کون کر سکتا تھا ایسے لگتا تھا کہ دونوں اطراف سانپ سونگھ گیاہو شاہی جلال جب کچھ کم ہوا تو اراکین نے جان کی امان پاتے ہوئے عرض کیا لیکن ان کی عرضی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے دوسری طرف دونوں لشکر اپنے اپنے سامان حرب کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے روز بروز ایک اضطرابی کیفیت بڑھتی جا رہی تھی کہ کسی طرح غصہ کم ہو تو کچھ عرض کیا جائے لیکن کس کی مجال کہ،،دم بھرے،،با لاآخر فیصلہ کے لیے بلکہ فیصلہ ٹھونسے کے لیے دونوں لشکروں کو بلایا گیا اور حکم جاری ہوا کہ دونوں طر ف سے ایک ایک مرد میدان میں مقابلہ ہو گا ایک طرف سے شیخ قدوس اور دوسری طرف سے چوہدری اخلاق کے نام قرعہ نکلا لیکن چوہدری نثار علی خان کے سامنے کسی کی جرات نہ ہوئی کہ بولے لیکن جب اس بات کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا تومخالف گروپ نے اس کو قبول نہ کیا اور اس کا عملی نمونہ اس وقت سامنے آیا جب ظہرانے کی دعوت سے انکاری لشکر اپنے ساتھیوں سمیت کوچ کر گیا تو ایسا لگا کہ اب کچھ ہو گا لیکن دوسری طرف تاریخ لکھنے والا مورخ قلم منہ میں دبائے ہنس رہاتھا وہ جانتا تھا کہ جانے والے لشکر کے تلوں میں تیل نہیں ہے دوسری طرف شیخ قدوس کا کلر سیداں میں واپسی پر شاندار استقبال کیا گیا لیکن جنگ کا متوقع خطرہ ابھی تک نہیں ٹلا تھا دوسرا گروپ اب اپنی نئی حکمت عملی پر غور کر رہا تھاکہ ان کا ایک اور دوست نے شیخ قدوس گروپ کی حمائیت کا اعلان کر دیا اب تو ن لیگ کے دوسرے گروپ کو اپنی شکست نظر آنے لگی تھی جب دیکھا کہ ایک ایک کر کے ان کے ساتھی اب اپنی سیاسی وابستگی بدلنے لگے ہیں تو انہوں نے باعزت واپسی کے لیے ایک اورسیاسی چال چلی کہ وہ وائس چیئرمین کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے جو مخالفت چیئرمین شپ کے لیے شروع ہوئی تھی وہ اپنے ہی گروپ کے دوست کو لے ڈوبی دوسری طرف سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ دو ساتھیوں کے جانے سے ان کے سیاسی غبارے سے ہوا نکال دی تھی تو دوسری طرف شیخ عبدالقدوس کا ایک بیان کہ وہ چوہدری نثار علی خان کے لیے ایسی کئی چیئرمینیاں قربان کر سکتا ہے ایک سیاسی چال تھی اور وہ کارگر ہو گی اور انہوں نے اس پر من عن عمل کیا اور چوہدری نثار علی خان پر واقع ہی اپنی چیئرمینی قربان کر دی لیکن وائس چیئرمین کی صورت میں شیخ عبدالقدوس اور چوہدری نثار علیخان کے حکم کی تعمیل کرنے والا چوہدری اخلاق اور اسکی سیاسی وفاداری کو قربان کر دیا گیا لیکن سیاست میں قربانیوں کو نہیں بلکہ اپنے مفاد کو دیکھا جاتا ہے کہ میری پگ کیسے اونچی ہو گی اور اس میں کس کس کی قربانی کرنی ہے اب ایک نظر اس سے پہلے کہ اگر ایسا ہی ہونا تھا تو اس پھر ان منتخب ممبران کو کیوں سولی پر لٹکایا گیا اور اتنے طویل عرصہ کے بعد ان کو پھر بند گلی میں چھوڑ دیا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت صرف نام کی حد تک ٹھیک ہے اور عملی طور پر تو ؟؟؟ یہاں ایک کہانی کو دلچسپی کے لیے لکھ رہا ہوں ایک عدالت نے ایک جاٹ کو سزا سنائی کہ سو (گنڈے) یعنی پیاز اور سو جوتے جو بھی مرضی ہے سزا قبول کر لو جاٹ نے سوچا کہ جوتے مشکل ہیں اس نے پیاز کھانے کی سزا قبول کر لی لیکن دس گیارہ پیاز کھانے کے بعد اس کے آنسو جاری ہو گے تو اس نے کہا کہ وہ جوتے کھائے گا جب بیس کے لگ بھگ جوتے پڑے تو پھر کہا کہ پیاز کھائے گا اسی طرح اس نے سو جوتے اور سوپیاز کھا لے بس اسی طرح کی سیاست آج کل وطن عزیز میں جاری ہے وہ ملکی یا مقامی ہو اللہ جب کرم کرتا ہے تو ہم سب بھول کر اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں اور جب اس کی پکڑ میں آتے ہیں تو مگر مچھ والے آنسو بہا نا شرو ع کر دیتے ہیں دنیا ساری کی ساری اللہ نے انسان کے لیے پیدا کی ہے اور انسان کو اپنی عبادت کے لیے لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے ہر کام دوش مقدر کو دیکھ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں اوریہ بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا کوئی میٹرک پاس ارب پتی بن جاتا ہے تو کوئی ارب پتی زمین پر آگرتا ہے لیکن وقت کبھی رکتا نہیں وہ چلا جاتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے اور اچھے فیصلے کرنے والوں کا نام رہتی دنیا تک قائم رہتا ہے اور نئے چیئرمین کلر سیداں کو یہ بات اپنے زہن میں رکھنی ہو گی

اپنا تبصرہ بھیجیں