کلرسیداں میں پولیس افسران کی کھلی کچہریاں/ چوہدری محمد اشفاق

اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ نے ملک بھر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں اور ان اقدامات کی روشنی میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہو چکی ہے اس کے علاوہ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب این اے باون میں ترقیاتی کاموں میں بھی کوئی کسر نہ

چھوڑی ہے اور خاص طور پر کلر سیداں کے علاقہ میں تو ترقیاتی کاموں کا جال بچھادیا گیا ہے بہت سے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور بہت سے جاری بھی ہیں تحصیل کلر سیداں ایسا علاقہ ہے جہاں کی عوام چوھدری نثار علی خان کے علاوہ کسی اور کا نام تک سننے کو تیار نہیں ہیں اس علاقے کے عوام کو یہاں کے سر کاری محکموں سے متعلق شکایات ہمیشہ ہی سے رہی ہیں خاص طور پر پر پولیس کے بارے میں عوام کچھ زیادہ ہی غیر مطمئن نظر آرہے ہیں جمعرات کے دن ایس پی صدر ڈاکٹر غیاث گل نے کلر سیداں ٹی ایم اے بلڈنگ میں ایک کھلی کچہری لگائی سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کھلی کچہری کے لیے عام عوام کو اطلاع بھی نہ دی گئی جس کی وجہ سے بہت کم تعداد میں عوام شریک ہوئے بہر حال کاروائی شروع ہوئی تو لوگ انچارج پولیس چوکی چوکپنڈوری اعجازگھمن کے خلاف برس پڑے اور کم و پیش تیس کے لگ بھگ افراد چوکی انچارج کے خلاف بولے اور اس کی ظلم و زیادتی کی داستانیں بیان کیں اورعوام نے ایس پی کے آگے فریادیں کیں کہ انچارج چوکی نے جھوٹے پر چوں کی بولی لگا رکھی ہے جرائمی لوگ دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ بے گناہوں پر جھوٹے کیس بنائے جارہے ہیں ایس پی صدر نے ان تمام شکایات کے نتیجہ میں چوکی انچارج کو معطل اور تبدیل کردیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف معطل اور تبدیل ہی سزا بنتی ہے اگر یہ سزا ہے تو یہ اُس کے لیے بہت اچھا ہو گیا کہ اُس کی جان ہی چھوٹ گئی ہے اور اُس کی طرف سے کی گئی زیادتیوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے کیا چوکی انچارج تبدیل کرنے سے تمام معاملات حل اور اُس کی طرف سے کی گئی زیادتیوں کا ازالہ ہو جائے گا ان کے علاوہ اور بھی بہت سے افراد نے تھانہ کلر سیداں کے خلاف شکایات پیش کیں ہیں چند افراد نے ایس پی کو یہاں تک تجاویز دیں کہ اگر پولیس چوکی چوکپنڈوری کو ختم کر دیا جائے تو بہت سے جرائم کم یا ختم ہو سکتے ہیں جب نوبت یہاں تک آجائے توکلر سیداں کے عوام کے دلوں کی دھڑکن چوہدری نثار علی خان کو اس علاقہ کی پولیس پر خاصی توجہ دینا ہو گی اور پولیس زیادتیوں کے بارے میں نو ٹس لینا چا ہیے لونی بازداراں کے ایک رہائشی نے شکایت کی کہ عدالت سے سیدھے آرڈر کے باوجود تھانہ کلر سیداں پولیس نے ہماری زمین پر قبضہ کر وادیا ہے دنیا کے ہر شعبے میں اچھے اور برے لوگ ہو تے ہیں لیکن محکمہ پولیس کچھ زیادہ ہی بد نام ہے پولیس سے عوام کی نفرت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس افسران کا رویہ کھلی کچہریوں میں تو بہت اچھا ہوتا ہے لیکن دفاتر میں اس کے بر عکس ہوتا ہے پولیس افسران کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کھلی کچہریاں ضرور لگائیں کرپٹ اہلکاروں کو ایسی سزائیں دی جائیں کہ اُن کے ساتھی اہلکار اُن سے خوف کھائیں کہ اگر ہم نے بھی کوئی غلط کام کیا تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا ایس پی ڈاکٹر غیاث گل نے ایس ایچ او کلر سیداں کو ہدایت کی کہ وہ دو ہفتوں میں تحصیل کلر سیداں کی تمام یونین کونسلزمیں لوگوں کے مسائل سنیں اور مجھے رپورٹ کریں جبکہ ایس پی نے خود اگلی کھُلی کچہری چوکپنڈوری کے مقام پرلگانے کا عندیہ دیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اگر کہیں بھی کسی کو اطلاع ملتی ہے کہ فلاں جگہ پر کوئی منشیات فروش یا کوئی اور جرائم پیشہ شخص موجود ہے تو میرے نام خفیہ خط لکھا جائے میں ضرور کاروائی کروں گا لیکن یہ سب محض طفل تسلیاں ہیں ایس پی اس علاقہ میں اتنی زیادہ بار کھلی کچہریاں لگا چکے ہیں کہ اس وقت ان کو کلر سیداں سے متعلق بہت آگاہی حاصل ہو جانی چا ہیے تھی لیکن وہ ہربار سابقہ مسائل کو پس پشت ڈال کر نئے سرے سے کاروائی شروع کرتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پچھلی کھلی کچہری میں پیش ہونے والے مسائل کو بھی سامنے رکھا جائے اور ان پر ہونے والی پیش رفت سے متعلق بھی عوام کو آگاہ کیا جائے تاکہ عوام مطمئن ہو سکیں صرف ایس ایچ او یا چوکی انچارج کو معطل کر دینا ہی تمام مسائل کا حل نہیں ہے وفاقی وزیر داخلہ کو اس علاقہ کی پولیس پر خصوصی نگرانی رکھنی چا ہیے اور کم از کم ہر تین ماہ بعد محکمہ پولیس کے علاوہ کسی اور انتظامی آفیسر کی بھی کھلی کچہری لگانے کے لیے احکامات جاری کریں تب جا کر اصل مسائل سامنے آئیں گئے صرف محکمہ پولیس ہی کو اس کام پر لگا دینے سے سب اچھا نہیں ہو گا بلکہ مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گئے پولیس افسران کو بھی اپنے رویوں میں بہتری لانا ہو گی بصورت دیگر عوام خود اپنے فیصلے ڈنڈوں سے حل کرنے کو ہی تر جہیی دیں گئے اور پولیس کے محکمہ پر اسی طرح انگلیاں اُٹھتی رہیں گی۔{jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں