کلرسیداں میں جمہوریت کو شکست/ آصف شاہ

جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت عوام سے اور عوام کے لیے ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا کوئی حقیقی تصور نہیں ہے ہمارے وہ لیڈران جو اپنے مطلب کے راگ الاپتے ہیں لیکن جہاں انہوں نے فیصلے کرنے ہوتے ہیں وہاں پر ان کی آمریت نطر آنے لگتی

ہے اور ان کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دینے والے سیاسی کارکن اور ورکر مایوس ہو جاتے ہیں بات کرتے ہیں این اے 52کی تحصیل کلرسیداں کی جہاں پر نعرے تو جمہوریت کے لگائے جارہے ہیں لیکن اصل میں آمریت نما جمہوریت کا سلسلہ چل رہا ہے بلدیہ کلرسیداں کی میئرشپ کی سیٹ ابھی تک خالی ہے اور جمہوریت کے نعرے لگانے والوں کے منہ چڑا رہی ہے لیکن یہ عوام کامسئلہ ہے اس سے ہمارے ہر دلعزیز لیڈر کو کیا ان کی شان اور کروفر کو کوئی آنچ نہ آئے ان کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کرنے والے سیاسی ورکروں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ؟یہ کہاں کی جمہوریت ہے ؟شیخ عبدالقدوس نے اس وقت مسلم لیگ ن کا پرچم سنبھالا تھاجب کلر سیداں میں دوسری سیاسی پارٹیوں کا طوطی بول رہا تھا اور وہ تن تنہا پارٹی کی کامیابی کے لیے دن رات جہدوجہد کرتے رہے

انہوں نے دن دیکھا نہ رات ۔مسلسل لگن اور جہدوجہد سے پارٹی کو ایک ایسا مقام دیا جس سے پارٹی کو چار چاند لگ گئے آج اگر چودھری نثار علی خان اہلیان کلر سیداں کا نام لیتے ہیں اور ان کی محبت اور خلوص کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں دن رات کی محنت کا کریڈٹ یقیناًشیخ عبدالقدوس کو جاتا ہے اور چودھری نثار کی کامیابی کے لیے ان کی کوششوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔جناب نے یہ بات تمام بلدیاتی نمائندوں اور سیاسی کھڑپینچوں کے سامنے کی تھی اور شیخ عبدالقدوس کو چئیرمین بلدیہ بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن جب وقت آیاتو ان کے ساتھ بھی سیاسی چال چلی گئی اگر ان کو الیکشن نہیں لڑوانا تھا تو کاغذات نامزدگی کیوں جمع کروائے گے اور اگر کاغذات جمع کروادیے گے تھے تو پھر الیکشن ہو جانے چاہیے تھے اس طرح کامیابی اورناکامی میں دونوں طرح ن لیگ کا ہی فائدہ تھا لیکن آمرانہ طبیعت کو یہ کہا ں گوارا تھا

کہ ایسا ہو جائے عوامی رائے یہ کہہ رہی ہے کہ ان کی تمام خدمات کو یکسر مسترد کر دیا گیااوراسی وجہ سے فیصلے کا اختیارلے لیا گیا کیوں کہ یہ جمہوریت ہے اور ان کے ہاں جمہوریت کے یہی قواعد و ضوابط ہوتے ہیں فیصلے کا اعلان چند دنوں میں کرنے کا کہا گیا لیکن وہ دن اب ہفتوں میں بدل گے ہیں بلدیہ تحصیل کلر سیداں کے ممبران سولی پر لٹک رہے ہیں دوسری طرف حاجی اسحاق گروپ بھی یقیناًمبارکباد کا مستحق ہے کیونکہ ان کا تعلق بھی ن لیگ سے تھا اور انہوں نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس نام نہاد سسٹم سے بغاوت کا اعلان کیا اور بارش کے پہلا قطرہ ہونے کا ثبوت دیا عوامی حلقوں کا کہنا ہے

کہ حاجی اسحاق کے اس اقدام نے چودھری نثار علی خان کی منہ زور سیاست کو بریک لگا دی ہے کیونکہ جہاں ورکر کی قدر نہ ہو اور ان کی تضحیک منشور میں شامل ہو جہاں شیخ عبدالقدوس جیسے ورکروں کی قدر نہ کی جاتی ہو وہاں ایسے کئی حاجی اسحاق کھڑے ہوں گے اپنی سیاست کے لیے نہیں بلکہ آمریت نما سیاست کو شکست دینے کے لیے جس سیاست میں قربانی دینے والے ورکروں کے لیے دروازے بند کرکے صرف اور صرف پیسے لگا کر نام بنانے والوں کے ساتھ سیلفیاں بنتی رہیں گی تو وہاں کے منتخب نمائندے اپنی عزت کو بچانے کے لیے دوسری پارٹیوں کا رخ کرتے رہیں گے کیونکہ جب آپ نئے آنے والوں کو ساتھ بٹھاتے رہیں گئے اور پرانے ورکروں سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کریں گے تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا جو دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ ہوتا ہے

اور یہ دنیا کا قانون ہے کہ عروج کے بعد زوال بھی ہوتا ہے اور آپ کی اپنی پالیسیاں اور آپ کے کارخاص ہی آپ کے لیے تبا ہی کا باعث بنے گے کیونکہ جب قدر کرنے والوں کی جگہ نہیں ہو گی تو وہ مجبورا کسی اور طرف جائیں گے اور ورکروں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے والی سیاست کا وقت گزر چکا کیونکہ جمہوریت کی اصل روح کو قتل کر کے آمرانہ حکم چلانے والوں کے لیے اب سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے جہاں شیخ عبدالقدوس اور ان جیسے دوسرے ورکروں کی قدر نہیں کی جائے گی وہاں ایسے کئی حاجی اسحاق پیدا ہوتے رہے گے اور عوام کے ٹیکس کو ان پر خرچ کر کے احسان جتلانے والوں کی سیاست جلد ہی ختم ہو گی ان کا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں