125

کلرسیداں سیاسی یتیم ہوگیا؟ شیخ عبدالقدوس کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا

تحصیل کلرسیداں سیاسی سماجی اورتاریخی اہمیت کی حامل تحصیل ہےلیکن گزرتے وقت کیساتھ کیساتھ اسکی سیاست بھی شائید آخری ہچکیاں لے رہی ہے ایک وقت تھا جب پورے پاکستان کا میڈیا کلرسیدان کو فوکس کیے رکھتا تھا اور چوہدری نثار کو اگرکھانسی آجاتی تو اسکی دوا بھی کلرسیداں سے جاتی تھی۔

کلرسیداں کی تاریخ میں بڑی نامی گرامی شخصیات کا عمل دخل رہاہے لیکن اللہ غریق رحمت کرے شیخ قدوس مرحوم کو انکی وفات کے بعد لگتا ہے کلرسیداں کی سیاست نالہ کانسی برد ہوگئی ہا ہونے کو ہے اسکا حقیقی ادراک گزشتے ہفتے گوجرخان سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے سابق MPAافتخار وارثی کے اس نوٹیفکیشن کے بعد ہوا کہ وہ THQکے تمام معاملات کو دیکھیں گے۔ حیرت ہوئی کہ کیا پورے کلر سیداں میں کوئی بھی ایسا اہل نہیں جو ایک نارمل کام کرسکے یہ یقینا کلرسیداں کے ان سیاسی کھڑپینچوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے

جنہوں نے اپنا زور سیاسی سماجی معاملات سے ہٹا کر تھانے کچہری کی سیاست کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے سیانے سچ کہہ گئے ہیں کہ کوئلوں کے کاروبار میں منہ کالا کرنا پڑتا ہے اورا س کی حقیقت بھی سامنے آگئی تحصیل کلرسیداں کا علاقہNA51اورPP7میں آتا ہے عوام کے مفاد کی جب بھی کسی جگہ بات کی گئی تو سیاسی پارٹیوں اور مقامی سیاسی کھڑپینچوں کی کھینچا تانی عوام کے آڑے آجاتی ہے

پارٹی ٹکٹ کا معاملہ ہو تو کلرسیداں کے عوام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑاپھر P7کا ٹکٹ کہوٹہ اور این اے کا ٹکٹ مری والوں کی جھولی میں ڈال کر کلرسیداں کے عوام سے جو زیادتی کی گئی تھی اسکا ازالہ ہونا چاہیے تھا لیکن ایکبار پھر گوجرخان سے افتخار وارثی کو تعینات کرکے یہ پیغام دے دیا گیا کہ انکے تلوں میں تیل نہیں۔ اربوں کھربوں کے ترقیاتی فنڈز لینے والی تحصیل اب مری اور کہوٹہ کے دو نمائندوں کی مرہون منت ہوکر رہ گئی ہے عوام اس وقت مری کے ایک ایسے شخص کی جانب دیکھ رہے ہیں

جو اپنے عوام کے لیے وہ خیال دل میں رکھتا کہ اللہ کی ایمان اس کا نظارہ سوشل میڈیا پر ہو کوئی دیکھ رہا ہے۔ حلقہ کے منتخب MNAموصوف اسامہ سرور نے الیکشن کے بعد حلقہ کے چند دورے کیے اور حلقہ کی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کا اعلان کیا لیکن الیکشن سے قبل وہ کلرسیداں میں مستقل ڈیرہ جمانے کے دعوے کو تاحال وفا نہ کرسکے اور نہ ہی یہ ممکن ہے

ان کا یہ اعلان انکی قیادت مریم نواز کے اعلان سے ملتا جلتا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد دو سو یونٹ تک بجلی فری ملے گی؟
جس طرح عوام کو بجلی فری مل رہی ہے اسی طرح کلرسیداں کے عوام کو اسامہ سرور کی جانب سے سرپرائز پیکج بھی مل رہا ہے اور ملتا رہے گا اب تو کلرسیداں کی سیاست میں اسامہ سرور او راجہ صغیر کے درمیان سیاسی چپقلش کا بھی دھواں اٹھنے لگا ہے

لیکن اس دھویں کے ختم ہونے کے بعد سیاسی فائدہ کہوٹہ اور مری کے عوام کو ملے گا۔نہ کے کلر سیداں کے عوام کو یہاں ان دو شخصیات کا زکر خیر نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے کلرسیداں کے عوام کے لیے جنگ لڑنے کی کوشش کی ان مِیں ایک نام شوکت بھٹی اور دوسرا راجہ ندیم کا ہے جنہوں نے پارٹی کی سینئر قیادت سے اختلاف کیا اور کلرسیداں کے عوام کے لیے میدان میں کود پڑے انکی کامیابی یقینی تھی لیکن انکے سیاسی جلسوں کو پولیس اور انتظامیہ کی
طاقت سے سبوتاژ کیا گیا

انہوں نے کونسی دہشت گردی کی تھی کہ دو تحصیلوں کی پولیس ان کے پیچھے تھی لیکن کلرسیداں کے باشعور عوام نے چند نام نہاد اور مفاد پرست کے پیچھے لگ کر اپنا مقدمہ ہار دیا۔ اس الیکشن میں ہار شوکت بھٹی اور راجہ ندیم کی نہیں ہوئی بلکہ تجصیل کلرسیداں کے عوام ہار گئے

جسکا خمیازہ آج وہ بھگت رہے کلر سیداں کی تاریخ سے لیکر آج تک بہت سے سیاسی موجود ہیں جن کی صاف ستھری سیاست کا ان کے قریبی حریف انکی سیاست کی تعریف کرتے ہیں لیکن وقت پڑنے پر چند مفاد پرست واسکٹ والے سیاستدان انکو یرغمال بنا لیتے جنکا خمیازہ پوری تحصیل کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے

کلرسیداں کے عوام ایک بات جان لیں کہ جب تک ان کی قیادت شیخ قدوس مرحوم جیسا شخص نہیں کرتا اس وقت تک وہ مسائل کی چکی اور گرداب میں پھنسے رہی گے اور کبھی مری کبھی کہوٹہ اور کبھی گوجرخان والے ان پر مسلط رہی گے کلرسیداں کے باشعورعوام کو شوکت بھٹی راجہ ندیم جیسے سیاسیوں کا ہمرکاب بننا ہوگا اور کالی ویسکوٹ کی مفاداتی سیاست کو دفن کرنا ہوگا بصورت دیگر خواری ان کا مقدر رہی گی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں