کلرسیداں دھانگلی روڈ سیاسی تنازعات کا شکار

مشہور محاورہ ہے کہ کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کردیتی ہے۔بس کچھ یہی حال علاقے میں بیٹھے فیس بک کے دانشوروں کا ہے۔جو کنویں کے مینڈک کی طرح سب کچھ اپنے آپ کو ہی سمجھتے ہیں،ان کی نظر میں ان کی رائے حتمی ہوتی ہے۔ ان ہی کا نظریہ بر حق اور سچ پرمبنی ہوتا ہے۔جو اپنی بات کا حرف آخر سمجھتے ہیں۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننا ان کا مشغلہ رہتا ہے۔کسی قسم کا کوئی ٹاپک ہو یا کسی قسم کی کوئی بحث کے معاملے میں ٹانگ اڑانا ان کا وطیرہ ہوتا ہے پلیٹ فام فیس بک کے چند من پسند ساتھیوں کے سواکچھ نہیں ہوتا۔جس کو وہ اظہار رائے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔چوہے کو پھٹکری کیا مل گئی تھی وہ بھی حکیم بن گیا تھا۔یہی حال ان کا ہے جن کا تعلق خواہ کسی بھی سیا سی پارٹی سے ہو۔اور یہی فیس بک کے دانشور علاقے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔کسی حکومت کا کوئی پروجیکٹ ہو۔سڑک کا معاملہ ہویا کسی سکول کالج کی بات ہو۔ہسپتال کی خستہ حالی ہو یا کسی گلی پشتے کا معاملہ۔علاقائی مسائل ہوں یا بنیادی ضروریات۔ رائے دینا تو دور اپنی بات کو حر ف آخر منوانا ان سے پیچھے بس ہی ہے۔کسی بحث کے اچھے برے اثرات کو دیکھے بغیر کودپڑنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو جب کوئی کام ہونے لگتا ہے یا حکومت کوئی پروجیکٹ اناؤنس کرنے لگتی ہے تو یہ فیس بکی دانشور ساون کے مینڈک کی طرح نکل آتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ پروجیکٹ سیا ست کی نظر ہو کر ختم ہو جاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم گزشتہ دو دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ ابھی کفر ٹوٹا تھا خدا خدا کر کے کلر سیداں سے دھان گلی سڑک کی تعمیر کی باز گشت شروع ہی ہوئی کہ مخصوص ٹولہ اپنی دانشوری کے جوہر دکھانے کے لیے سوشل میڈیا پر سرگرم ہوگیا۔جہاں علاقائی مسائل کو پس پشت ڈال کر من پسند شخصیات کو ترجیح دی جانے لگی۔اسی کشمکش میں خدشہ ہے کہ اگر ان فیس بکی دانشوروں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو کہیں یہ پروجیکٹ بھی پہلے کہ طرح ٹھپ نہ ہو جائے۔پروجیکٹ کس حکومت کا تھا۔ آواز کس نے اٹھائی بل کس نے پاس کروایا۔افتتاح کون کرے گا۔اہل علاقہ کو اس بحث سے نکل کر علاقے کی بہتری کے لیے سوچنا ہو گا ورنہ ان چند لوگوں کی وجہ سے علاقے کا ہر پروجیکٹ خواہ کسی حکومت کی طرف سے ہو متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔یاد رہے کہ عوامی حلقوں کی جانب سے حلقہ پی پی 7کا رزلٹ تسلیم نہ کرنا بھی علاقے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔علا قائی ترقی میں متعلقہ اداروں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے دیں۔ علاقائی مسائل کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑ ھائیں۔ سوشل میڈیا کے لوگوں کو چاہئے کہ علاقے کا مثبت چہرہ پیش کریں کیونکہ آپ کا تعلق کسی بھی جماعت یا پارٹی سے ہے علاقائی مسائل سب کے یکساں ہیں۔ علاقے کے لیے اگر کوئی پروجیکٹ شروع ہو رہا ہے تو اس کوAppreciateکریں اس سڑک کی تعمیر کے لیے جس نے بھی آواز اٹھائی یا کام کیا اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ داد کا مستحق ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں