تحریر : عبدالجبار چوہدری
روات تا کلرسیداں دور رویہ سزک نوے کروڑ کی خطیر رقم سے تعمیر کی جا رہی ہے جس سے تحصیل کلرسیداں پر ترقی کے دروازے کھل
جائیں گے اور بلاشبہ اگر اس کو شاہراہ ترقی سے موسوم کریں تو یہ مبالغہ نہ ہو گا اس وقت کلرسیداں میں تمام معروف تعلیمی سسٹم پنجاب کامرس کالج، ایجوکیٹر، فوجی فاؤنڈیشن، اوپی ایف، بحریہ کالج اور شاہین کالج کے ادارے یہاں کام کر رہے ہیں ایک پرائیویٹ آنکھوں کا ہسپتال اور تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال بھی کام کر رہا ہے اس کے علاوہ معروف نجی بنکوں نے بھی حال ہی میں اپنی شاخیں کھولیں ہیں جس سے بین
الاقوامی معیار کی بنکنگ کی سہولت عوام کو میسر آئی ہے ان تمام اداروں میں کام کرنے والا سٹاف روزانہ کی بنیاد پر راولپنڈی سے یہاں آرہا ہے نالہ کانسی کے کنارے بڑے بڑے تجارتی مراکز تعمیر کئے جارہے ہیں او ر دیکھتے ہے دیکھتے کئی کئی منزلہ عمارتیں کھڑی ہو رہی ہیں چند ماہ بعد جب یہ روڈ مکمل ہو جائے گی اور اس کو کارپیٹڈ کرنے کے لئے اضافی گرانٹ کی شنید بھی سنائی دے رہی ہے تیز رفتار ٹریفک جہاں عوام کے لئے وقت کی بچت لائے گی وہاں حادثات کی شرح میں بھی اضافہ ہو گا جس سے نمٹنے کے لئے۱۱۲۲ جیسی ایمرجنسی سروس کا ہونا بہت ضروری ہے کلرسیداں میں ۱۱۲۲ کے دفاتر قائم کرنے میں اس وقت کوئی امر مانع نہیں ہے حادثات کی صورت میں زخمیوں کو فوری طبی امداد کے لئے برلب سڑک ایک ٹراما سنٹر کی بھی اشد ضرورت ہے اس کے لئے بنیادی مرکز صحت ساگری جو کہ سڑک کے اوپر واقع ہے ایک آئیڈیل جگہ بن سکتی ہے
اس وقت ۱۱۲۲ کی قریب ترین پوسٹ سواں کیمپ کے مقام پر واقع ہے خدانخواستہ کلرسیداں کے کسی بڑے تجارتی مرکز میں آگ لگنے کی صورت میں راولپنڈی سے فائر بریگیڈ اور ریسکیو ورکرز پہنچنے میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگ سکتے ہیں اور ان دو گھنٹوں میں مقامی سطح پر کوئی ایسی حفاظتی چیز موجود نہیں جو کام آسکے اگر فائر بریگیڈ اور ایمرجنسی سروس کلرسیداں میں قائم ہو جائے تو رسپانس ٹائم بیس سے پچیس منٹ ہو سکتا ہے تعلیمی اداروں میں جہاں کئی ہزار طلباء ہیں یہاں بھی کسی ایمرجنسی کی صورت میں انتہائی قلیل وقت میں انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے اور حال ہی میں دھان گلی پل دریائے جہلم پر بنایا گیا جو کہ ایک پکنک سپاٹ میں تبدیل ہوتاجارہا ہے اور خصوصا گرمیوں میں تو ہر چھٹی والے عوام کا جم غفیر ہوتا ہے
اور کھلے دریا میں نوجوان نہا رہے ہوتے ہیں اور کشتیوں پر بیٹھ کر فیمیلیز دریا کی سیر کرتی ہیں وہاں بھی کسی قسم کی ریسکیو ٹیمیں موجود نہیں ہوتیں اس وقت تک تو کوئی بڑا حادثہ رونما نہیں ہو الیکن عوام کی دلچپی دیکھتے ہوئے خدانخواستہ ایساہو بھی سکتا ہے ابھی تک اس روڈ پر کوئی بڑی انڈسٹری بھی نہیں لگائی گئی سوائے ریڈکوٹیکسٹائل مل کے جہاں بہت سے مقامی اور غیرمقامی ورکرز کام کرتے ہیں کلر سیداں بائی پاس کے ساتھ ساتھ بہت سی جگہ ہے جو بڑی انڈسٹری کے لیے موزوں ہے اور مستقبل میں یہاں بھی انڈسٹری لگنے کی بھی امید ہے اس کے علاوہ یہاں کے بہت سے لوگ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں رہ رہے ہیں
ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سرمائے کو علاقے میں ہی خرچ کریں اس دو رویہ شاہراہ کی تعمیر کے بعد ان کے خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکیں گے بیرون ممالک رہنے والے ہمارے پاکستانی بھائی پلازہ کی تعمیر یا کسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ کی خریداری جیسے غیر پیداواری کاموں پر پیسہ لگانے کی بجائے اگر چھوٹی انڈسٹری پر قیمتی سرمایہ لگائیں تو اس سے علاقہ میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جس سے ہم وطنوں کی خدمت بھی ہو گی۔