کلرسیداں بوائز ڈگری کالج حکومتی توجہ کا منتظر

تعلیم کے بغیر کوئی ملک نہ ہی خوشحال بن سکتا ہے اور نہ ہی کامیابی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اہرام مصر ہو یا دیوار چین، تاج محل کی خو بصورتی ہو یا ہسپا نیہ کی درسگاہیں آج بھی علم کے پیاسوں کو دعوت علم و فکر دے رہی ہیں۔ اہل مغرب کی ترقی ہو یا اہل مشرق کی، سب تعلیم کی ہی مرہون منت ہیں۔ آج جب ہم ملک کے تعلیمی سرکاری اداروں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم ترقی پذیر ممالک میں خود کو بہت پیچھے پاتے ہیں۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا تمام تر انحصار علمی اداروں پر ہوتا ہے۔ کلر سیداں کو تحصیل بنے ہوئے سترہ برس ہو چکے ہیں مگر افسوس تحصیل کا واحد بوائزڈگری کالج نہ صرف زبوں حالی کا شکار ہے بلکہ عہد رفتا کی یاد تازہ کر رہا ہے۔حکومت پنجاب نے انتظامیہ کے لشکر تو پال لیے مگرتحصیل کے واحد ڈگری کالج کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ یہاں یہ نہ صرف تحصیل کلر سیداں بلکہ تحصیل گوجر خان اور کہوٹہ سے بھی تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے اس کالج میں آتے ہیں۔حکومتی عدم توجہ کے باعث نہ تو یہاں پر سٹاف پورا ہے نہ عمدہ بلڈنگ۔ نو بت یہاں تک آچکی ہے کہ تین سو طلبہ کو ایک ٹیچر پڑھا رہا ہے جو کہ تعلیمی اصولوں کے عین منافی ہے۔اڈیٹوریم کی دیواریں بغیر چھت کے مغلیہ دور کی یادیں تا زہ کر تی ہیں۔ چار دیواری کی بات کی جائے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیمی ایمر جنسی کی دعوے دار حکومت نہ جانے کیوں تعلیمی درسگاہوں کو بے یارو مددگار چھوڑ رہی ہے۔تحصیل کلر سیداں کو بنے ہوئے طویل عرصہ گزر چکا ہے۔خوبصورت عمارتی پلازے بڑے بڑے شاپنگ ہال تو تعمیر ہو گئے مگر افسوس اس علمی درسگاہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اس درسگاہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں اکژیت غریب سٹوڈنٹس کی ہے جو وسائل نا ہونے کے باعث دور دراز کے علاقوں سے یہاں آتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد سٹاف کی کمی کو پورا کرے تاکہ بچوں کا مستقبل بہتر ہو۔ یہی وہ درسگاہیں بنی ہوتی ہیں جہاں بقول اقبال
یہاں علم و ہنر کے پرَدے کر شاھین بنائے جاتے ہیں
پھرتا بہ فلک پروازوں کے آداب سکھائے جاتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں