کلرسیداں انتظامیہ کھیلوں کے فروغ میں روکاوٹ بن گئی

اسامہ منظور/ملک بھر میں عیدالفطر کے بعد سے کھیلوں کا انعقاد ہو رہا ہے۔ کلرسیداں میں بھی عید کے تیسرے دن کرکٹ اور دیگر کھیلوں کا انعقاد شروع ہو گیا۔ 23 اور 24 جولائی کو کلرسیداں کے علاقہ گف میں آل پاکستان کرکٹ کا میلا سجنا تھا‘ ملک بھر کے نامور کھلاڑی کلرسیداں پہنچ چکے تھے‘ کھیل شروع ہونے کے پانچ منٹ بعد ہی پولیس نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کو بنیاد بنا کر کھیل رکوا دیا اور ٹورنامنٹ ملتوی کرنا پڑا۔ اسی شب بھلاکھر گاوں میں والی بال کے ٹورنامنٹ پر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے دو افراد کو حراست میں لے کر کھیلوں کا سامان ضبط کر لیا۔ ان دو ٹورنامنٹ کا انعقاد تو رکوا دیا گیا کیونکہ یہاں سے کورونا پھیل جاتا لیکن تھانہ کلرسیداں سے صرف چند منٹ کے فاصلہ پر ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد جاری رہا۔ روزانہ کی بنیاد پر وہاں کھیل جاری رہا لیکن وہاں سے کورونا نہ پھیل سکا نہ ہی انتظامیہ حرکت میں آئی۔ 24 جولائی کی شام کلر سیداں سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر والی بال میچ کا انعقاد کیا گیا‘ نہ تو وہاں پولیس گئی اور نہ ہی کورونا وائرس۔اس سب معاملے کے دوران اگر ملک بھر سے آئے کھلاڑیوں کے سامنے کسی فرد واحد کی نہیں بلکہ پوری تحصیل کلرسیداں کی عزت پر سوال اٹھے۔ خود کو کلرسیداں کا ٹھیکیدار سمجھنے والے کہیں آس پاس بھی نظر نہ آئے۔ کھیلوں کے ذریعے چند ماہ قبل اپنی سیاست تو چمکا لی گئی‘ عہدے اور نوٹیفیکیشن کا اجراءبھی کیا گیا لیکن کہیں بھی اس معاملے کو حل کرنے میں آس پاس نظر نہ آئے۔ بلکہ انتظامیہ و پولیس کے رویے پر مزمتی الفاظ بھی زبان سے نہ نکل سکے۔ دکھ کی اصل بات تو یہ ہے کہ صداقت عباسی صاحب کے حلقے میں کھیلوں پر دوہرا معیار اپنایا گیا۔ مری میں کرکٹ کا ٹورنامنٹ گزشتہ ایک ہفتہ سے جاری رہا‘ ملک بھر کے کھلاڑیوں نے شرکت کی‘ لیکن اسی حلقہ کے علاقہ کلرسیداں میں کھیل کے انعقاد پر ہتھکڑیاں پہنا دی گئی۔ صداقت عباسی نے 22 جولائی کو مری میں ایک سڑک کا افتتاح کیا‘ لگ بھگ سو سے زائد افراد مجمع کی صورت میں موجود تھے‘کسی فرد واحد نے بھی ماسک‘ گلووز یا ایس او پیز کا خیال نہ رکھا۔ لیکن کھیل کے میدانوں کو ویران کروا دیا گیا۔ اگر کھیلوں کی اجازت نہیں تو ملک بھر میں کیسے کھیل جاری ہیں؟؟ ملک کی بات تو دور تحصیل کلرسیداں میں جس دن دو مختلف جگہوں پر میدان ویران کروائے گئے اسی دن دو مزید جگہوں پر کھیل ہوتے رہے۔ قانون کو سب کے لیے برابر ہونا چاہیے‘ خواہ وہ عام شہری ہو‘ کھلاڑی ہو یا پھر سیاسی نمائندہ۔ اگر کھیلوں کی اجازت نہیں دی جاتی تو پھر چرسی‘ بھنگی، شرابی‘ پوڈری‘چور‘ غنڈے‘ڈاکو ہی سامنے آئیں گے۔ نوجوانوں کو کھیلوں سے روکنا ان کو برائیوں میں پڑنے کی دعوت دینا ہے انتظامیہ کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اور کھیل کے میدان ویران کرنے کے بجائے انہیں آباد کرنے میں عوام کی مدد کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں