کرپشن سے نجات کے سلسلے میں سب سے پہلی ضرورت حلال اور حرام کاادراک ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حق و انصاف امانت و دیانت قانون اور ضابطے کی پابندی ہے۔
تمام معلومات میں مکمل شفافیت معلومات او رفیصلوں کو اخفاکے پردے سے باہر نکالنا ہے۔ پورے نظام میں احتساب اورنگرانی کے نظام کو قانون اور ضابطے کا حصہ بنانا ہے۔
ایک طرف ہر فرد کی اخلاقی تربیت اورگناہ اور ثوا ب کے احساس اور آخرت کی جوابدہی کی زندگی کو موثر بنانا اور دوسری طرف قانو ن ضابطے فیصلے کے طریقوں اور کارگردگی کے جائزے کا ایسا واضح او ر شفاف نظام بروئے کارلانا کہ جس سے کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے امکانات کو کم سے کم کر دیا جا ئے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اہم چیز اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس اور اجتماعی زندگی میں احتساب کا مو ثر بندوبست میں افراد کی اجارہ داری اور خود اختیاری کو کم سے کم کرناضروری ہے۔ نگرانی کے نظام میں بھی انحصار ایک فرد کے مقابلے میں دویاتین افراد کی ٹیم پرہونا چاہیے
عام افراد کے لئے بالعموم اور متعلقہ افراد کے لئے بالخصوص معلومات کی فراہمی کا دروازہ کھلنا چاہیے۔ احتساب کے قانو ن میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے
سب نے اس کا وعدہ تو کیا ہو ا ہے لیکن اقتدار میں آکر اس وعدے کو کو ئی بھی یاد نہیں رکھتا۔ ہمارے ملک کی روایت یہ ہے کہ احتساب اور اپنے لئے احتساب سے استثنیٰ اور کھلی چھٹی۔یہ ہے
انفرادی اور اجتما عی کر دار جو کرپشن کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہے۔کرپشن پر قابو پانے کا نہیں اس ذہن اور اس طریقے دونوں کو بدلنا ضروری ہے۔
یقینا احتساب کے نظام اور قانون کو صاف شفاف مختصر اور قابل عمل ہونے کی ضرورت ہے ہر شخص کے دل میں احتساب کی عدالت قائم ہو جائے تو اس سے بہتر نقطہ آغاز ممکن نہیں۔
اسلام کا تو اصول ہی یہ ہے کہ اپنا احتساب کر لو قبل اس کے تمہارا احتساب کیا جائے اسی طرح اجتماعی نظام میں بھی احتساب ضروری ہے۔ قانون کو انصاف کے اسلامی اور مصروف اصولوں پر مبنی ہونا ضروری اور اس کا اطلا ق بلا امتیاز سب پر ہو نا چاہیے۔
احتساب کردار کا حکو مت اور اس کے عام اداروں سے آزاد ہو نا ضروری ہے۔ وقت پر انصاف کی فراہمی انصاف کا لا زمی حصہ ہے اور انصاف میں تا خیر انصاف کا قتل ہے۔ ہمارے ملک میں مقدمات اور تحقیقات اتنا وقت لے لیتے ہیں کہ انصاف کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور یہ سراسر ظلم ہے۔
احتساب ہو رہے ہیں تحقیق و تفتیش اور مقدم پیش کر نے کے شعبوں میں اعلیٰ صلا حیت ترتیب اور ذہانت کی شہرت رکھنے والے افسران متعین کئے جا ئیں جن کو جدید معلومات اورٹیکنالوجی سے باخبر رکھا جائے احتسابی ادارے پر شفاف نگرانی کا نظام قائم ہونا ضروری ہے۔
لیکن اسے سیاست کے سائے سے پاک رکھا جائے احتساب کے سلسلے میں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف قانون کاکا م نہیں پارلیمنٹ کا اپنا بھی کردار ہے اس کی کمیٹیا ں اس عمل کا مؤثر ترین نظام ہیں پبلک اکاؤئنٹس کمیٹی ایک مستقل حساس اور نگران ادارہ ہے
لیکن ہمارے ہاں وہ ایک مردہ یا نیم جان ادارہ بن کر رہ گئی ہے ایسی مثالیں بھی ہیں کہ آڈیٹر جنرل کی رپو رٹ پر بر سوں تک بحث ہی نہیں ہو ئی جبکہ رپورٹیں الماریو ں کی زینت بنی ہوئی ہیں اسی طرح پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات حکومت اور ہر ادارے کے احتساب کا ایک مؤثر فورم ہے
لیکن بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور حکومت دونوں اس کا حق ادا نہیں کر رہے کئی سال تو ایسے بھی گزرے ہیں کہ جتنے سوالات ارکان نے پو چھے ہیں پورے سال میں ان کے جواب تک نہیں آئے اوراگرکو ئی جواب آئے بھی ہیں تو وہ نا مکمل آئے پھر یہ کہ جس دن جو ا ب پارلیمنٹ میں آتے ہیں
اس دن متعلقہ وزیر مو جو د نہیں ہو تے یہ طرز عمل پارلیمنٹ کی تو ہین اور اس کی کارکردگی پر کلنک کا ٹیکہ ہے جس کا سد باب ضروری ہے اگر پارلیمنٹ کے لو گ اپنے گھر کو درست کر لیں تو انہیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی ملک میں احتساب کا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاہم احتساب کا عمل دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے مترادف نہیں ہوناچاہیے۔
احتساب اصلاح اول کا ایک مؤثر نظام ہے اور مشاورت اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن ہمارے ملک میں احتساب ایک مثبت اور تعمیری عمل بننے کے بجائے ایک منفی اور نیچادکھانے کا عمل بن کررہ گیا ہے۔یا پھر اتنا غیر مؤثر ہو گیا ہے کہ اس کا ہو نااور نہ ہو نا برابرہے احتساب کے نظام میں ایک تبا ہ کن جھرنا،بہانہ ساز سودے بازی یا پلی بارگینگ کا نظام ہے یہ نظام کسی صورت درست نہیں ہے اسے فی الفور ختم ہونا چاہیے
جہاں جرم ثابت ہو وہاں پو ری لو ٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے اورمجرم کو قید جرمانہ اور مستقبل کے لئے نااہلی کی شکل میں سزادی جائے اور اس کی تشہیر کی جائے کرپشن کو جتنا مشکل بنایا جائے گا اتنا ہی اس پر قابو پایاجا سکے گا ورنہ کرپشن بھی ایک کھیل بنی رہے گی
اور یہ کھیل دن رات ہمارے سامنے ہورہا ہے اورآئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا ایک اور اہم چیز عوام میں کرپشن سے نفرت کرپٹ افراد کا سوشل بائیکاٹ اور معاشرے میں ان کے لئے منہ دکھانا مشکل بنایا جاتاہے جس معا شر ے میں یہ احساس ہو اس میں کرپشن کبھی حاکم نہیں بن سکتی لیکن آج عالم یہ ہے کہ کرپٹ افراد دندناتے پھرتے ہیں نہ انہیں کو ئی شرم ہے اور نہ ہی معاشرے کا ضمیر ان کو کچھ کہتا ہے۔
ہمیں معاشرے میں امانت اور دیانت،شرافت اور قناعت کی اقدار کو پر وان چڑھانا ہے تاکہ کرپشن کسی بھی معاشرے اور ریاست کے لئے ایک ناسور کی حیثیت رکھتی ہے
لیکن اگر جسم بھی ہمارا ہو تو یہ جان لیوا سرطان کی شکل اختیا ر کر لیتی ہے۔ ہر دوسری خرابی اور بگاڑ سے اس کا ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جو بگاڑہمیشہ وسعت دیتا ہے بڑے دکھ سے یہ بات کہنی پڑتی ہے
اس وقت پاکستان میں کرپشن نے ام الخبائت کی حیثیت اختیا ر کر لی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں بگاڑاور فساد کا ذریعہ بن گئی ہے آئینی گرفت سے اسے قابو کئے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے میں اصلاح کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وقت کی اہم ترین ضرورت کرپشن کے خلاف ہمہ گر جہاد ہے۔
اس جہاد کو برپا کرنے کی ذمہ داری ان تمام افراد اور عناصر یہ ہے جو مظلوم ہیں جو اس کا نشانہ ہیں جو انصاف سے محروم ہیں جن کے حقوق کو شب وروزبے دردی سے پامال کیا جارہاہے اور قانون اور نظام عدل خاموش تماشائی بنے ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مرتکب ہو رہے ہیں ضرورت اس امرکی ہے
کہ موجود ہ حالات کے پیش نظر کرپشن کے خلاف ایک ملک گیرتحریک کا آغاز کیا جائے اور ظلم کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے اور اپنے حقوق کے حصول اور تمام مجبور انسانوں کو لوٹ مار کے ہیں اس عذاب سے نجات دلانے کے لئے کرپشن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں او کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں۔