212

کرونا وائرس میں احتیاطی تدابیر اور اسلامی تعلیمات

ضیاءالرحمن ضیاء‘ پنڈی پوسٹ نیوز/رونا وائرس ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ممالک میں پہنچ چکا ہے ۔ پاکستان بھی متاثرین کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے اور یہاں بھی وائرس تیزی سے پھیلنے لگا ہے ۔ پوری دنیا میں اس کی وجہ سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر عوام میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ۔ لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں اور حکومتوں کی طرف سے احتیاطی تدابیر کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی ہیں جن پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دی جا رہی ہے ۔
حکومت پاکستان کی طرف سے بھی عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ حکومت کی طرف عوام کو پاکیزہ رہنے اور ہاتھ دھونے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے یا مصافحہ کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔ان اجتماعات میں شادی بیاہ اور سیاسی و مذہبی جلسے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اب حکومت کی طرف سے مساجد میں حاضری کے دورانیہ کو بھی کم سے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ مساجد میں تھوڑی دیر کے لیے اکٹھے ہوں ، نماز جمعہ کے اجتماعات کو بھی مختصر کیا جائے کیونکہ یہ ایسی بیماری ہے جو تیزی سے ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے اور صحت عامہ کے لیے ان احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ عوام کم سے کم اس مرض میں مبتلا ہوں اور معاشرہ کسی بڑے سانحہ سے محفوظ رہے۔
ہمارے ملک میں بھی وائرس کی وجہ سے جہاں اور بہت سی ابحاث چھڑی ہوئی ہیں وہیں ایک یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ حکومت نے جن احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کے لیے کہاہے کہ یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں یا نہیں ۔ کہیں ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے ہمارے توکل علی اللہ پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا یا ہمارا ایمان تو کمزور نہیں ہو جائے گا ؟ بہت سے افراد ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے پر زور دینے کی وجہ سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور کہتے ہیں یہ ایمان کی کمزوری ہے کہ ہم بیماری کی وجہ سے ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں ، یا مساجد میں زیادہ دیر نہ ٹھہریں اور نماز جمعہ کے اجتماعات کو مختصر کریں ۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور ایمان کی کمزوری ہونا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔
ملک کے دو معروف عالمان دین مفتی تقی عثمانی صاحب اور مولانا طارق جمیل صاحب نے بھی اس طرف عوام کی توجہ دلائی ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیارکرنا ایمان کی کمزور نہیں بلکہ یہ سنت نبویﷺ سے ثابت ہے ۔ جیسے کہ مولانا طارق جمیل صاحب نے کہا کہ ایک مرتبہ بارش میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ اعلان کر دیں کہ تمام حضرات گھروں میں ہی نماز ادا کریں۔ اس لیے کہ اس سے لوگ تکلیف میں مبتلا ہو سکتے تھے ۔ یہی حال یہاں بھی ہے کہ لوگوں کے مسجد میں اجتماع اور ایک دوسرے سے میل جول کی وجہ سے بیماری زیادہ پھیل سکتی ہے اس لیے ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر مسجد کے اجتماع کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے ۔
ہمارا مذہب اسلام فطرت انسانی کے عین مطابق ہے ۔ یہ شدت پسند مذہب نہیں ہے بلکہ اس کی تعلیمات ہر موقع پر انسان کی رہنمائی کرتی ہیں اور یہ زمان و مکان کی قید سے بالکل آزاد ہیں۔ آج کے دور میں سائنسدان جب بھی کسی اہم معاملے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر تحقیق کر نے کے بعد جب وہ اس کے نتائج کا اعلان کرتے ہیں تو وہاں پہلے سے ہی سنت رسول ﷺ موجود ہوتی ہے ۔ اب دنیا میں ہاتھ دھونے اور پاکیزہ رہنے کی بہت زیادہ تاکید کی جارہی ہے حالانکہ اسلام نے تو ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی پاکیزگی پر بہت زور دیا ہے بلکہ اسے نصف ایمان قرار دیا ہے ۔ دن میں پانچ بار نماز پڑھنا فرض ہے اور وضو کے بغیر نماز کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ وضو کیا ہے ؟ وضو پاکیزگی ہے اور پانچ وقت نماز ادا کرنے والا ہر وقت پاک صاف رہتا ہے ۔
جس طرح اسلام نے پاکیزگی پر زور دیا ہے اسی طرح احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی بھی ترغیب دی ہے ۔ جنگوں کے دوران صحابہ کرام ؓ بلکہ خود نبی کریم ﷺ نے زرہیں پہنی ہیں تو کیا کوئی مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ ان کامل ایمان والی ہستیوں کو موت کا خوف تھا ا س لیے وہ اپنے بچاو¿ کے لیے زرہیں اور خود وغیرہ پہنتے تھے تاکہ تیر و تلوار کی ضربوں سے محفوظ رہیں ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے وہ ہماری تعلیم کے لیے یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے تھے کہ ہمیں یہ سمجھ آئے کہ اندھے توکل کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے وبا اور طاعون والی جگہ جانے اور وہاں سے نکلنے کر بھاگنے سے بھی منع فرمایا ہے ۔ اس لیے کہ یہ بات مشاہدہ سے ثابت ہے کہ جو لوگ وبا والی جگہ جاتے ہیں وہ بھی اکثر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں ایسے ہی جو لوگ وہاں سے نکل کر دوسری جگہ جاتے ہیں تو وہاں کے لوگوں میں اس بیماری کی منتقلی کا باعث بنتے ہیں۔ تو یہاں بھی اگر توکل کی بات ہوتی تو آپ لوگوں کو منع نہ فرماتے بلکہ کہتے کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لہٰذا وبا والے علاقے میں جانے اور وہاں سے نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن آپ نے لوگوں کو ایسی صورتحال میں احتیاط کرنے کی ترغیب دی ہے لہٰذا احتیاطی تدابیر اختیار کرناضروری ہے
www.ziarehman.com

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں