کرونا وائرس سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔مگر کیسے؟

عبدالستارنیازی،پنڈی پوسٹ/گزشتہ دو ماہ سے کرونا وائرس کی بازگشت پاکستان میں سنائی دے رہی تھی، کہ اچانک ایک کیس سامنے آگیا ، پھر بڑھتے بڑھتے تعداد 2000 سے تجاوز کر گئی، حکومت پاکستان نے ایک سلوگن دیا ہے کہ کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے، اب لڑنا کیسے ہے ؟ یہ کسی نے نہیں بتایا، کہتے ہیں گھروں میں رہائش اختیار کر لیں تو بس لڑنے کی پریکٹس ہو جائے گی، مگر عوام گھرو ں میں بیٹھ جائے ایسا کیسے ممکن ہے ؟ پنجاب میں جزوی لاک ڈاﺅن کے اعلان سے اب تک دکانیں بند کرانے کے علاوہ دفعہ 144 پر عملدرآمد عملاً نظر نہیں آ رہا، پولیس کا کام اب دکانیں بند کرانا ہی رہ گیا ہے،شام کو روزانہ بازار کا راﺅنڈ لگاتے ہیں اور پھر فوٹو کھینچ کر کے حکام بالا کو پہنچا دیئے جاتے ہیں،82 مقدمات اب تک درج ہوچکے ہیں،لیکن مقدمہ درج ہونے کے ساتھ ہی حکام بالا کی ہدایات کے مطابق ملزمان کی ضمانت ہوجاتی ہے کیونکہ کرونا کے باعث ملزمان کو حوالات میں رکھنے پر پابندی ہے، بازار کی بات کی جائے تو چونکہ اشیائے خوردونوش کی دکانوں ، فروٹ سبزی کی ریڑھیوں اور میڈیکل سٹورز لاک ڈاﺅن کے زمرے میں نہیں آتے اس لئے دن بھر بازار میں پکنک منانے والوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتاہے، جبکہ دیگر بازار سنسان پڑے رہتے ہیں، اب گزشتہ روز سے ہوٹل بھی کھل گئے ہیں اور پارسل کی سہولت کے بورڈ آویزاں کر دیئے گئے ہیں، باقی ماندہ دکانات کپڑے، جوتے اور کاسمیٹکس وغیرہ کی بچتی ہیں جن کے کھلنے کے احکامات بھی اب جاری ہو جانے چاہئیں اور ان دکانات پر بھی پارسل کی سہولت کے بورڈز آویزاں کر دیئے جائیں تو یقینا کرونا وائرس سے نجات مل سکے گی، پاکستانی قوم صرف ڈنڈا پیر کی زبان سمجھتی ہے اور تاحال انتظامیہ کو ڈنڈا پھیرنے کی اجازت نہیں ملی اس لئے کرونا وائرس کے کیسز پنجاب و دیگر صوبوں میں روز بروز بڑھتے جارہے ہیں، جزوی لاک ڈاﺅن ایک ایسی قسم ہے جس میں ایک خاص طبقہ مستفید ہورہاہے اور ایک خاص طبقہ گھروں تک محدود ہوچکاہے، کرونا وائرس کے مریضوں کیلئے ایمرجنسی اقدامات و انتظامات دیکھے جائیں تو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال گوجرخان میں ڈاکٹرز کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں، جبکہ دو نجی کالجز میں قرنطینہ سنٹرز قائم کر کے بیڈز و دیگر سامان پہنچا دیا گیا ہے، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کی او پی ڈی بندہے جبکہ ایمرجنسی میں ڈاکٹرز و نرسز کام کررہے ہیں ، کلیام اعوان ، پڑی فیروزال، تھاتھی، پھروال سرو خان میں شک کی بناءپر محکمہ صحت و انتظامیہ نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے گھروں کو سیل کیا اور گھر میں رہائش پذیر افراد کو قرنطینہ اختیار کرنے کی ہدایت کی، تھاتھی میں بزرگ کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ کے ٹیسٹ لئے گئے ہیں، کلیام اعوان میں خاتون میں وائرس کے شبہ پر انہیں بینظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی منتقل کیا گیا جن کی رپورٹ مثبت آئی اور انہیں RIU راولپنڈی منتقل کیا گیا ان کے ساتھ میل جول رکھنے والوں کے گھروں کو سیل کر کے انہیں گھر میں مستقل رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، اس ساری صورتحال میں جہاں عام آدمی خوف و ہراس میں مبتلا ہے وہیں دیہاڑی دار مزدور لاک ڈاﺅن میں جن مالی مشکلات کا شکار ہو چکا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، گھروں میں فاقوں تک نوبت پہنچ چکی ہے اور حکومت رضاکار فورس بنانے میں مصروف ہے، مخیر حضرات اپنے اپنے طورپر مدد کررہے ہیں ، مگر چند ایسے مخیر حضرات بھی ہیں جو کسی نہ کسی ویلفیئر ٹرسٹ کو فون کر کے کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے محلے میں مستحقین ہیں ان تک راشن پہنچا دیںاور ایسا کہتے ہوئے انہیں شرم بھی نہیں آتی ، پنجاب میں کس کو چار ہزار روپے ملیں گے ؟ اب پھر بینظیر کارڈ کی رقم کے حصول کی طرح ایزی لوڈ کی دکانوں کے سامنے خواتین و حضرات کی لمبی لمبی لائنیں نظر آئیں گی تو کیا کرونا کے بڑھنے کا خدشہ نہیں ہوگا ؟ نیشنل بینک مین گوجرخان برانچ ، جنرل پوسٹ آفس کے باہر جس طرح کا رش ہوتاہے اس سے اندازہ لگایاجا سکتاہے کہ انتظامیہ وائرس کی روک تھام میں کتنی سنجیدہ ہے ،عوام کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ آپ بازار کا چکر لگاکر چیک کر لیں ، اسی وجہ سے کرونا کے کیسز دن بدن بڑھ رہے ہیں، ہم کب جاگیں گے ؟ ہم کب سمجھیں گے ؟ ہم کب سوچیں گے ؟ جس وائرس نے دنیا کی سپر پاور کے گھٹنے لگوا دیئے ہیں وہ پاکستان جیسے مقروض ملک میں کیا تباہی کر سکتاہے ؟ ہمیں کیا پرواہ۔ ۔۔!!!! ہمیں نہ اپنی جانوں کی پرواہ ہے اور نہ دوسروں کی ۔ بس خدا ہی ہمیں ہدایت دے ۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں