کرونا۔رمضان اور مسلمان

ہم دیکھتے اور سنتے آئے ہیں کہ دنیا میں جب کبھی بھی زلزلہ سمندری طوفان یا کوئی اور آفت آئی تو اس سے دنیا کا ایک مخصوص علاقہ ہی متاثر ہوا لیکن کرونا پہلی موذی وبا ہے جس نے تقریبا ڈیڑھ سال سے پوری دنیا کو اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے پوری دنیا کا نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے لوگوں کے کاروبار تباہ و برباد ہو گئے ہیں اکثر ممالک نے زمینی سمندری راستے بند کر دائے ہیں حتیٰ کہ فضائی آپریشن بھی معطل کر دئیے ہیں دوسرے ممالک میں کام کرنے والے لوگ پھنس چکے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے یہ وائرس چین سے ظاہر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا چینی ذرائع ابلاغ کے مطابق پہلا کیس 17 نومبر 2019 کو چین کے صوبے ہوبے کے صدرمقام ووہان کے ایک 55 سالہ شخص میں ظاہر ہوا تھا جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پہلا کیس 8 دسمبر 2019 کو سامنے آیا وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی ظفر مرزا نے 26 فروری 2020 کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کرونا کے دو کیس سامنے آئے ہیں ایک کراچی اور دوسرا وفاق کے زیر کنٹرول علاقے میں اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے کرونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا پہلے پہل تو لوگ اس کو مذاق سمجھتے رہے 2020 میں اس کا رخ زیادہ تر امریکہ اور یورپ کی طرف رہا اس وقت اس کا مرکز و محور انڈیا اور پاکستان ہے اس کی تباہ کاریوں کے اعداد و شمار کچھ یوں ہیں اس موذی وائرس سے دنیا میں متاثرین کی تعداد تقریبا 15 کروڑ اٹھائیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اس موذی مرض سے اموات تقریباً 30 لاکھ سے زائد ہو چکی ہیں سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ہوئیں جن کی تعداد تقریبا چھ لاکھ کے قریب ہے اس کے بعد برازیل میں تقریبا چار لاکھ افراد لقمہ اجل بنے اسی طرح بترتیب یورپی ممالک میں اموات ہوئیں لیکن اب انڈیا میں یہ وائرس اپنی پوری طاقت کے ساتھ انسانیت کو نگل رہا ہے ہسپتال بھر چکے ہیں آکسیجن سلنڈر ختم ہوچکے ہیں لوگ چلتے بھرتے گر رہے ہیں میتوں کو جلانے کے لیے لکڑی اور شمشان سکڑ گے ہیں روزانہ ساڑھے تین لاکھ لوگ متاثر ہو رہے ہیں ساڑھے تین چار ہزار مر رہے ہیں آزاد ذرائع اس تعداد کو بہت زیادہ ذکر کرتے ہیں تقریبا 2 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں اموات دو لاکھ بیس ہزار سے بڑھ چکی ہیں اس میں ابھی اور تیزی آ رہی ہے اصل بات یہ ہے کہ جس ملک نے بھی احتیاط کے دامن کو جھٹک دیا اس ملک کے لوگوں پر یہ قہر بن کے ٹوٹا پہلے ساری پابندیاں بالائے طاق رکھتے ہوئے یورپین انجوائے کرتے رہے اب انڈیا والوں نے کھمب کے میلے میں خوب مل کر اشنان کیا اور الیکشن میں سیاسی جماعتوں نے جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے خوب اپنی طاقت کا اظہار کیا اور اب غریب عوام اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں ادھر ہمارے پیارے وطن کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں یہاں پر بھی اس وبائی دورانیہ کی تیز ترین لہر موج بن چکی ہے اس سے متاثرین کی تعداد تقریبا ساڑھے آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اس کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 18 ہزار سے بڑھ گئی ہے اگر اب بھی ہم نے احتیاط کا دامن نہ تھاما تو اللہ تعالی معاف فرمائے ہماری حالت بھی انڈیا جیسی ہو سکتی ہے پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ بقول وزیر صحت صوبہ سندھ عذرا پیچوہو کے اس کی برازیلین اور افریقن اقسام بھی سامنے آئی ہیں جو اس وائرس کی طاقتور ترین اقسام ہیں جن پر یہ ویکسین بھی اثر نہیں کرتی اور اس کے باعث اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اس لئے اب ہم کو چاہیے کہ حد درجہ احتیاط اختیار کریں ماسک کا
استعمال ضرور بضرور کریں غیر ضروری گھروں سے نہ نکلیں اور دوسری بات اس وقت دنیا پر کرونا کی صورت میں عذاب الٰہی آیا ہوا ہے الحمدللہ ہم مسلمان ہیں فکر والی بات یہ ے کہ عمرہ و حج بند ہو چکا ہے اجتماعی اعتکاف پر پابندی عائد کر دی گئی یعنی آزادانہ عبادات بھی نہیں ہو رہیں رمضان المبارک کا برکتوں رحمتوں والا مہینہ اپنے اختتام کی طرف تیزی سے گامزن ہے وہ رمضان جو جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے وہ رمضان جو رجوع الی اللہ کا مہینہ ہے وہ رمضان جو سراسر رحمت ہی رحمت ہے وہ رمضان جو دعا کا مہینہ ہے وہ رمضان جو گناہوں کی بخشش و مغفرت کا مہینہ ہے وہ رمضان جو توبہ واستغفار کا مہینہ ہے توبہ واستغفار وہ عظیم کام ہے جو تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بدبخت ہے وہ شخص جس نے رمضان پایا اور یہ مہینہ نکل گیا اور وہ اس میں بخششِ نہ کروا سکا اسی طرح دوسری روایت میں ہے اس شخص کی ناک خاک آلودہ ہو جس نے رمضان پایا اور اس کی بخشش نہ ہوئی ” رمضان المبارک کا ہر دن رات پہلے ہی رحمتوں برکتوں مغفرت بخشش کرم سے مالا مال تھا اللہ رب العزت نے اہل ایمان پر مزید کرم کی بارش فرمائی اور رمضان کی آخری طاق راتوں میں ایک ایسی رات رکھ دی جسے شب قدر کہتے ہیں جو ہزار مہینہ سے بہتر ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شب قدر میں ایمان و خالص نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ” کیوں نہ ہم اہل ایمان ان رحمتوں برکتوں بخشش و مغفرت کے دریائے بیکنار میں غوطہ زن ہو کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں اور مل کر دعا کریں اے اللہ ہم کو اس کرونا کی وبا کے عذاب سے نجات عطا فرما۔

اپنا تبصرہ بھیجیں