کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ،کریمنلز میں خوف کی علامت

جرم، انسان کی جبلتوں کی اندھیری تہہ سے نکلنے والی وہ آگ ہے جو کسی نہ کسی روپ میں سماج کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیگلی کی نکڑ پر ہونے والی چوری ہو یا کسی معصوم کی جان لینے والا بے رحم قاتل یاسفید پوش کرپشن کی سیاہی میں لتھڑا ہوا ایک افسرلیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف جرم کو کوس کر اس سے نجات پا سکتے ہیں؟ یا ہمیں نظامِ تفتیش اور انصاف کو بدلنے کی ضرورت ہے شائید یہی سوال 2024 میں ملک کے ایوانوں موجود کسی کے زہن میں گونجا جب جرائم کے بڑھتے ہوئے گراف اور کمزور انوسٹیگیشن اور پراسکیوشن باعث ملزمان کو ملنے والے ریلیف نے عوام کا ریاستی نظام قانون و انصاف پر اعتماد متزلزل کر دیا۔ اسی پس منظر میں ایک نئی کرن ابھری اور یوں سی سی ڈی کی بنیاد ڈال دی گئی ۔

یہ ادارہ محض ایک نیا ڈیپارٹمنٹ نہیں بلکہ جرم کے خلاف ریاست کا وہ خاموش انقلاب ہے جو بغیر ڈھنڈورا پیٹے، جرائم پیشہ گروہوں خلاف موثر کارروائی کے راستے پر گامزن ہے سی سی ڈی کی تشکیل ایک نئی سوچ کا غماز تھی ایک ایسا تفتیشی ادارہ جو صرف ظاہری شہادتوں پر نہیں، بلکہ جدید ٹیکنالوجی ڈیجیٹل ڈیٹا، فرانزک لیبزاور انٹیلی جنس کے امتزاج سے جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف ٹھوس کاروائیاں کرے، سی سی ڈی کاعام تفتیشی افسر صرف تیز نظر رکھنے والا نہیں بلکہ ایک تربیت یافتہ پروفیشنل ہے جو فنگر پرنٹس سے لے کر ڈیجیٹل آئی ٹی مہارتوں سے لیس ہے،سی سی ڈی نے اپنے مختصر عرصے میں کئی سنگین معاملات کے ایسے کیسز حل کیے جو ماضی میں برسوں تک فائلوں میں دبے رہے،یاد ہے وہ ”سائے کی گلیوں کا قاتل”، جس نے 7 خواتین کی زندگیوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا وہی کیس، جو پورے ملک میں خوف کی علامت بن چکا تھا، سی سی ڈی نے صرف تین ماہ میں حل کر لیاقاتل کوئی باہر کا نہیں، بلکہ معاشرے کا بظاہر نارمل فرد نکلا، ایک ایسا شخص جسے روایتی تھانے کبھی شناخت نہ کر پاتے اسی طرح، اربوں روپے کے ”ڈیجیٹل بینک فراڈ” کو بین الاقوامی نیٹ ورکس کے ذریعے بے نقاب کرنا سی سی ڈی کی سائبر کرائم سیل کا ایسا کارنامہ ہے جس سے ہر شخص انگشت بدنداں ہیسی سی ڈی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کی ہر کارروائی قانونی دائرے میں رہ کر کی جاتی ہے۔ یہاں کوئی ”پولیس مقابلہ” نہیں، کوئی جعلی ایف آئی آر نہیں، بلکہ ہر ملزم کو قانونی تحفظ کے ساتھ انصاف کے کٹہرے تک لایا جاتا ہے

عدالت کے سامنے چالان پیش کرنا، عوامی اعتماد کے لیے میڈیا بریفنگ دینا، اور Whistleblower کی شناخت کو مکمل رازداری سے محفوظ رکھنا یہ سب اس ادارے کی اخلاقی برتری کے دلائل ہیں یقیناً، سی سی ڈی کے قیام سے امید کی شمع روشن ہوئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادارہ ہمارے پورے عدالتی اور پولیس نظام کو بدل سکتا ہے؟نہیں۔ جب تک سی سی ڈی جیسا ماڈل تھانوں کی سطح پر نہیں پھیلایا جاتا، جب تک تفتیش اور پراسیکیوشن ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ملکر کام نہیں کرتے،اور سب سے اہم ادارے میں سیاسی مداخلت ختم نہیں کی جاتی، تب تک سی سی ڈی کی افادیت محدود رہے گی لیکن جہاں یہ سب ہورہا ہے وہاں یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا کل اس ادارے سے راو انوار اور عابد باکسر جیسے کتنے افسران جنم لے سکتے ہیں

تو دوسری طرف محکمہ پولیس میں موجود جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کرنیوالی کالی بھیڑوں کیخلاف یہ کا اقدام یا کارروائی کرینگے اس کی تازہ ترین مثال ایس ایچ او مندرہ مہر گل کے افغان دہشت کرد کریمنل ولی جان کے ساتھ رابطوں کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنے افسران کی مخبری شامل ہے لیکن اس پر کسی بڑی کارروائی کے بجائے معاملہ معطلی تک گیاتاکہ اڑتی دھول بیٹھ جائے اور وہی دھول عوام کی آنکھوں میں جھونک دی جائے بدقسمتی دیکھیے ایک اکیلا مہر گل کیسے یہ کام کرسکتا ہے

اسکا پورا ایک نیٹ ورک ہوکا تھانے میں موجود ایس ایچ او کے کارخاص سمیت مختلف ایجنسیوں کے اہلکار اس معاملے سے کیسے بے خبر رہے اور اگر بے خبر تھے تو انکے خلاف محکمانہ انکوائری کیوں نہیں کی گئی دوسری طرف پنجاب میں ابتک کیے گے پولیس مقابلوں کی بازگشت رکنے کو نہیں آرہی ہیسی سی ڈی کا کام دیکھیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اگر نیت درست ہو، وسائل دیے جائیں، اور نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، تو ہم جرم کے خلاف صرف لڑ نہیں سکتے، بلکہ جیت بھی سکتے ہیں یہ ادارہ ایک امید ہے لیکن یہ امید قائم رہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام اس کا ساتھ دیں، اور ریاست اسے تنہا نہ چھوڑے لیکن یہ سب قانونی دائرے میں ہوتو بصورت دیگر گلی محلوں میں راو انوار اور عابد باکسر دھندناتے پھریں گے اور وحشت کا بدترین ناچ قانون کو مزید اندھا کردیگا جہاں سی سی ڈی کو وسائل اور اختیارات مہیا کئے گئے ہیں وہی پر اس کے اختیارات پر موثر چیک اور احتساب بھی ضروری ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں