کبھی اے نوجوان ِمسلم تدبر بھی کیا تم نے

آصف خورشید/یقینا آج ہر والدین اپنی نوجوان نسل کے رویوں سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ آئے روز کے نت نئے حادثات سے دل برداشتہ بھی ہیں۔ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سب کچھ سہولیات اور اسباب ہونے کے باوجود ہمارے نوجوان بے راہ روی کا شکار کیوں ہیں۔بات بات پر لڑنا جھگڑنا، عدم برداشت، ذہنی ٹنشن کے علاوہ سماجی برائیوں کی دلدل میں دن بدن پھنستا جا رہاہے۔جس کے نتیجے میں خود کشی،چوری لڑائی جھگڑا،زنا کاری اور نشہ آوری جیسی لعنت نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔جبکہ اقبال نے تو انہیں اپنا شاھین کہا ہے مگر آج بدقسمتی سے ان شاھینوں کے پر کاٹ دئیے گئے ہیں۔شاید اسی وجہ سے یہ اڑنے کی وہ طاقت نہیں رکھ رہے جو انہیں رکھنی چاہیے۔آیا ان کہ بنیادی تربیت میں فرق آرہا ہے، والدین اپنی پوری توجہ نہیں دے پا رہے۔ مدرسہ اپنا حق ادا نہیں کر رہا۔سکول و کالج اخلاقی تربیت دینے سے قاصر ہو چکے ہیں، سماجی ومعاشرتی ماحول تربیت میں آڑے آ رہا ہے۔یا کوئی اور عوامل ہیں جو ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف مائل کر رہے ہیں۔کیا ان کی تربیت میں ہر شخص حق ادا نہیں کر رہا جو کرنا چاہیے۔جبکہ پیدائشی طور پر تو بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے تربیت والدین کی ہوتی ہے جن میں ماں سر فہرست ہوتی ہے۔بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو سیکھنے کا عمل یعنی تربیت شروع ہو جاتی ہے۔اس دوران میاں بیوی کی آپس کی گفتگو، ذہنی میلان بھی تر بیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔اگر آپس میں رویہ اچھا اور شائستہ ہوگا تو اس کا اثر بھی تربیت پر ہو گا۔ماں کے پیٹ میں بھی بچے کی تربیت کا اچھا، برا اثر پڑتا ہے مشہور واقعہ ہے حضر ت بختیا ر کاکی۔ ؒآپ کی والدہ پندرہ پاروں کی حافظہ تھی جب حضرت بختیار کاکی پیدا ہوئے۔آپ کو مدرسے بھیجا گیا تو قاری صاحب نے سبق کا کہا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک میرا آج پہلا دن ہے۔مگر میں پندرہ پارے حفظ کر چکا ہوں آپ سولویں پارے سے شروع کروائیں۔ قاری صاحب نے جب وجہ پوچھی توآپ نے بتا یا کہ میری ماں پندرہ پاروں کی حافظہ تھی میں ابھی ماں کے پیٹ میں تھا کہ میری ماں ہر روز قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھی اس کا اثر یہ ہوا کہ میں نے اپنی ماں کے پیٹ میں پندرہ سپارے حفظ کر لیے۔تو معلو م ہوا کہ اچھی صحبت کا اثر پڑ سکتا ہے تو یقینا بری صحبت کا اثر بھی پڑ سکتا ہے۔مگر بد قسمتی سے اکثر مائیں اپنا حق ادا نہیں کر رہی۔اس کے بعد ذمہ داری آتی ہے باپ کی۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کیا آیا ہمارے والدین اس کی تربیت کا حق ادا کرتے ہیں۔یقینا نہیں۔ والدین کا آپس میں رویہ، بچے کی تربیت پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر آپ کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔کوئی پوچھتا ہے بیٹا ابو کہاں ہیں ابو بیٹے کو کہتے ہیں بیٹا بتاؤ ابو گھر پر نہیں ہیں، یعنی جھوٹ کی ابتداآپ گھر سے کروا رہے ہیں۔اسی طرح اگر آپ بچوں کوٹائم نہیں دے رہے تو بھی آپ ان کی حق تلفی کر رہے ہیں۔ یہاں پر والدین کو اپنا حق ادا کرنا چاہئے۔اس کے بعد باری آتی ہے سکول یا مدرسہ کی۔ کیا آج ہمارے تعلیمی ادارے تربیت میں اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔یقینا ہر گز نہیں۔حالانکہ والدین کے بعد اساتذہ تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں کا ماحول بھی اس لیول کا نہیں جو ہونا چاہیے۔کیونکہ استاد ہی وہ شخصیت ہوتی ہے جو طالب علم کے اندر چھپی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔اور ممولے کو شاھین بناتا ہے۔مگر دیکھا گیا ہے کہ سٹوڈنٹس کو سزا دی جا رہی ہے۔اور سزا اس طرح کہ آٹھویں کلاس کا سٹوڈنٹ ہے اور چوتھی کا سٹوڈنٹ اس کو جوتے مار رہا ہے۔گویا ہم نے اس کی عزت نفس کو اس عمر میں ہی ختم کر دیا۔ احساس محرومی کا شکا ر وہ سٹوڈنٹ سٹیج پر آکر کیا خاک بولے گا۔کیونکہ اس کی اندر کی خود اعتمادی کو ہم نے ختم کر دیا۔ اسی طرح ہمارے سکولوں کا ماحول ٹیچروں کا آپس میں رویہ، سب کچھ تربیت پر اثر انداز ہوتے ہیں اگرچہ وہ اچھے نمبروں سے امتحان پاس کر جائے۔ اس کے علاوہ ہمارا معاشرہ پوری طرح سے تربیت نہیں کر رہا۔معاشرتی برائیاں بھی ہمارے نوجواں کو بے راہ روی کا شکار کر رہی ہیں اس کے علاوہ انٹر نیٹ، ٹیلی فون، منشیات، پیسے کی چہل پہل،بااثر شخصیات کی طر ف سے حق تلفی، گروبندیاں اور گروپ بندیاں۔یقینا ان تمام چیزوں نے ہمارے نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف دھکیل دیا ہے۔اور نوجوان نسل کی اسلامی تعلیما ت سے دوری نے اسے اور زیادہ آزاد خیالی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اگر ہم چاہے کہ ہمارے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہوں تو ہمیں شروع ہی سے ان کی تربیت پر غور کرنا ہو گا۔تب جا کر یہ اقبال کے شاھین ہونے کا حق ادا کریں گے اور اقبال کے اس پیغام پر غور کریں گے۔
کبھی اے نوجوان ِمسلم تدبر بھی کیا تم نے کہ وہ کیا گردوں تھا جسکا توہے اک ٹوٹا ہو ا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا

اپنا تبصرہ بھیجیں