پروفیسر محمد حسین/انسان جسم‘زندگی‘ایک بااحتیار روح دو فرشتوں اور ایک شیطان کا مجموعہ ہے اور ان سے متاثرہ روح کی جو آخری شکل بنتی ہے اس کا نام نفس ہے۔ اس ترتیب میں جسم اور زندگی کا تعلق طبیعات سے ہے اور روح فرشتوں اور شیطان کا تعلق مابعدطبیعات سے ہے۔اپنی فطرت کی بقاء جسم کا جھکاؤ مادی یعنی زمینی اسباب کی طرف ہے اور روح کا میلان آسمان کی طرف ہے۔ملائکہ اسے صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتے رہتے ہیں اور شیطان اسے گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔نفس کو ان سب کے درمیان اللہ کا دیا ہوا اختیار استعمال کرتے ہوئے اپنا راستہ خود بناتا ہے۔اسے زندگی میں خود ہی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اسفل السافلیں کے مادی گڑھے میں گرنا ہے یا مقام علین کی طرف رجوع کرنا ہے۔چونکہ ہر چیز کا فطری رجحان اپنی اصل کی طرف ہوتا ہے اس لئے جسم وہ تمام چیزیں چاہتا ہے جن کا تعلق مٹی سے ہے۔چنانچہ جس نفس کو جسم سے پیار ہو جاتا ہے اسے دنیا کی زندگی کے دوران مادی ذرائع اپنی طرف کھینچتے ہیں جبکہ ملائکہ اسے عالم الغیب کے اعلیٰ تر حقائق یاد دلاتے ہیں۔ انسان کی مخالفت میں اس کا ازلی دشمن شیطان اسے مزید گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے وہ اپنی بیٹھک آدمی کے جسم اور دماغ کو بناتا ہے اور نفس کو عالم الغیب کی آفاقی سمت کے بجائے زمین کے اسفل کی طرف کھینچتا ہے۔ اور اگر کوئی نفس اپنے جسم کے قدرتی ارضی میلان اور شیطان کے اثر میں آجاتا ہے تو وہ مسلسل اندر کی طرف ہی سکڑتا جاتا ہے لیکن اگر عقل و دماغ ملائکہ کا ساتھ دیتے ہیں یعنی ضمیر کی آواز پر توجہ دیتے ہیں اور عمل کرتے ہیں تو نفس باہر کی طرف نشوونما پاتا ہے اس طرف اس کی وسعت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور ترقی کی کوئی حد نہیں۔انسان کی اصل کامیابی کیا ہے؟اس کا جواب اللہ نے قران پاک میں اپنے کئی ایک پیارے لوگوں کی زندگی کی مثال کے ذریعے واضح کیا ہے مثلاََحضرت ابراہیم ؑاللہ کے خلیل یعنی بہت بڑے دوست ٹھہرے لیکن وقت کے دنیاداروں سے پوچھا جاتا تو وہ یہی کہتے کہ ہمیں تو اس کی سمجھ نہیں آتی اچھے خاصے گھرانے کا نوجوان تھا دماغ الٹ گیا اور بادشاہ سے ٹکر لے لی وہ تو خیر ہوئی کہ آگ میں جلنے سے بچ گیا لیکن پھر بھی سبق نہیں سیکھا مصر چل پڑا پھر وہاں حالات خراب ہوئے تو عرب کے صحراؤں میں سر گراں رہا پھر بیٹے کو ذبخ کرنے لگا وہ تو مینڈھا چھری کے نیچے آگیا ورنہ حضرت اسماعیل کو تو قتل کرنے والا ہی تھا لیکن اس کے بعد بھی عقل نہ آئی کسی بڑے شہر میں سکونت اختیار کرکے زندگی کے آخری ایام تو چین سے گزار لیتا بلکہ وہاں لق ودق پہاڑوں میں مکان بنانے لگا۔یہ وہ تصویر ہے جو اللہ کے خلیل اور اولیاء کے بارے میں دنیا داروں کو نظر آتی ہے۔ اس لیے ان کی نظر اس سے باہر کچھ دیکھ ہی نہیں سکتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک زندگی دراصل امتحان کا وقفہ ہے اور مصائب وہ دراصل امتحان کے پرچے ہیں۔اصل زندگی تو نتیجہ کے بعد شروع ہو گی اور وہ حیات بعدالموت ہے قرآن مجید اپنے مانے اور عمل کرنے والوں سے ایسی کامیابی کا وعدہ کرتا ہے۔جس کا موت کچھ نہیں بگاڑ سکتی اس کامیاب انسان کے نزدیک دنیا مقصود منزل نہیں بلکہ زمان ومکان کے سفر میں ایک امتحانی وقفہ ہے جس کا ایک ایک سکینڈ انتہائی قیمتی ہے۔جہاں کی دو رکعت نفل نماز کا انعام اس قدر ہے کہ عالم برزخ میں پہنچ کر زمین کی تمام دولت اس کے مقابلے میں بے وقعت معلوم ہو گی اس کی مثال پانی کا بھرا ہوا گلاس ہے بظاہر ایک بے قیمت گلاس ہے لیکن پیاس سے مرنے والا اس کے بدلے اپنا گھر گھاٹ‘شان وشوکت‘کرسی طاقت غرضیکہ سب کچھ دے کر خریدنے کے لئے تیار ہو گا۔ایسے ہی آج بظاہر بے وقعت نظر آنے والے روحانی مشاغل عالم برزخ میں اس قدر قیمتی ہوں گے کہ دنیا کے بادشاہ بھی اپنی حماقت پر روئیں گے کہ بیکار مشاغل میں زندگی کوضائع کر دیا لہذا اللہ کے بندوں کے سامنے اہم ترین سوال یہ ہے کہ وہ زندگی کیسے گزاریں کہ اصل کامیابی مل جائے؟اس سلسلہ میں جیسا کہ حضرت ابراہیم کی مثال دی گئی ہے۔اسلام کا فلسفہ حیات عجیب بھی ہے اور عظیم بھی جیسے لوگ نقصان سمجھتے ہیں وہ اسے نفع کہتا ہے جسے لوگ ناکامی کہتے ہیں وہ اسے کامیاب کہتا ہے۔شہید کو لوگ مارا گیا کہتے ہیں قرآن پاک اس کو ہمیشگی کی زندگی کا مثردہ سناتا ہے۔اس کامیابی کے لئے پہلی شرط صحیح اعنقاد ہے یعنی ہم کامیابی اور ناکامی کے میعار کو خوب سمجھ لیں اور زندگی کی ترجحات کو اس مطابق ڈھال لیں مطلب یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر پکا یقیں ہو اور اس بات پر بھی کہ موجودہ زندگی ایک امتحانی زندگی ہے جس کا ہر ایک دن ہمارا امتحانی پرچہ ہے اور دنیا کی اونچ نیچ‘راحت‘امارت‘غربت سب اس پرچہ کے سوال ہیں ان سوالوں کا جواب ہمارا عمل ہے اگر عمل مالک کی بندگی کاہے تو اس میں کامیابی ہے۔ اگر ترجیحات کو دنیا وی شان و شوکت کے لئے ہوں اور خواہشات ابدی زندگی میں کامیابی کی تو یقیناََ ایسا آدمی اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے یہ منافقوں کا وطیرہ ہے یہ ایک طرح کے بیمار ذہین ہیں جن کی ہوس دنیاوی شان و شوکت ہے جو کبھی پوری نہیں ہوتی۔
276